سعودی قرضہ اور برادرانِ یوسف؟

792

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالرز اسٹیٹ بینک میں جمع کروانے اور ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز مالیت کا تیل موخر ادائیگی کی سہولت پر دینے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ جس کے فوری بعد تمام ہی ارکان ِ حکومت خوب بینڈ باجے کے ساتھ شور مچار رہے ہیںکہ واہ بھائی کیا کمال کیا عمران خان نے ’’سعودی عرب نے پاکستان کو قرض دے کر بہت بڑا احسان کر دیا ہے‘‘۔ لیکن حقیت یہ ہے کہ جس کو سنتے اور بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ پاکستانی حکومت ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود اس قدر ذلت اور رسوائی سے حاصل ہونے والے قرض پر شور مچا رہی ہے جس میں سے صرف اور صرف عوام کی ذلت اور غربت جھلک رہی ہے؟ مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے ملنے والے چار ارب 20 کروڑ ڈالرز کی تفصیلات اس طرح بتائی کہ اس پیکیج کے تحت سعودی عرب پاکستان کو ایک سال میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل موخر ادائیگی کی سہولت پر دے گا جبکہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروائے جاچکے ہیں۔
لیکن تحقیق سے پتا چلتا ہے سعودی عرب نے پاکستان کو جو قرض دیا ہے وہ بد ترین شرائط کا قرض ہے اور بہت تلاش کے بعد بھی ایسا کوئی ملک نہیں ملا جس نے سعودی عرب سے اس قدر بدترین شرائط کے ساتھ قرض حا صل کیا ہو۔ عمران خان اور ان کے ارکان ِ کابینہ نے اس قرض کی منظوری بھی دے دی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد نے کہا کہ پاکستان ہمارے دل میں خاصی اہمیت رکھتا ہے، ہم ہمیشہ سعودی عرب کو اپنا برادر ملک کہتے اور سمجھتے ہیں اور وہاں سے آئی ہوئی ہر چیز کو عزت و احترم سے چومتے اور ایسا ہی ہماری کابینہ نے کیا۔ لیکن کابینہ کو نہیں معلوم کہ دونوں ممالک کے درمیان اس ذلت آمیز قرض کی شرائط ضرور دیکھنی چاہییں ورنہ یہ ملک سے غداری نہیں بلکہ اس سے بھی بدتر درجے کا جرم ہو گا۔ سعودیوں کا قرض، کردار برادرانِ یوسف ہے؟
اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ایک سال کے اس قرض کی مدت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا اور اس پر پاکستانیوںکے ٹیکس کی رقم سے 16کروڑ ڈالرز کا سود سعودی عرب کو ادا کرنا ہو گا اور سعودی عرب ایک سال میں کسی بھی وقت 72 گھنٹوں کے نوٹس پر پاکستان سے سود سمیت رقم واپس مانگ سکتا ہے اور اگر پاکستان قرض واپس کرنے میں ناکام ہوا تو اس صورت میں پاکستان کو دیوالیہ ملک قرار دے دیا جائے گا اور اس کی بیرون ملک اساسی مالیت کی جائداد ضبط کر لی جائے۔ اگر پاکستان کی آئی ایم ایف نے رکنیت ختم کر دی تو فوری رقم واپس کرنی ہوگی۔ اس میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ قرض کا یہ معاہدہ صرف سعودی قانون تک محدود رہے گا۔ اس معاہدے میں پاکستانی قانون تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ 4 ارب 20 کروڑ ڈالرز کا یہ قرض پاکستان کے عوام کی معاشی تباہی نہیں بلکہ پاکستان کے قانون سے بھی بالا تر ہوگا۔
یہ ٹھیک ہے کہ صرف چار ماہ میں ڈالر کی قدر میں 20 روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس سے ملک کی بقا اور سلامتی کو ختم کرنا ہرگز درست نہیں۔ سعودی عرب کے پاکستان کے سرکاری بینک میں تین ارب ڈالرز جمع کروانے کے اعلان کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کن شرائط پر یہ پیسے اسٹیٹ بینک میں رکھ سکتا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے اجازت کی ضرورت ہو گی۔ عموماً اس قسم کا مالی تعاون قرض نہیں ہوتا تاہم اس پر سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ کہا یہی جارہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یہ رقم ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی قیمت کو استحکام دینے کے لیے دی گئی ہے۔ حکومت اس رقم کو خرچ نہیں کر سکتی تاہم اس پر سود دینا ہوتا ہے تاکہ مارکیٹ کو اعتماد ہو کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم نہیں ہوں گے۔ سعودی عرب سے یہ رقم بھی اسی طرح دی گئی ہے جیسا کہ ماضی میں دو ارب ڈالرز کی رقم دی گئی تھی اور بعدازاں ایک ارب ڈالرز کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ماضی میں بھی جب سعودی عرب نے مطالبہ کیا پاکستان نے انہیں یہ امدادی رقم سود سمیت واپس کی اور مستقبل میں بھی واپس کرنا ہوگی۔ اس ڈپازٹ کو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں رکھا جائے گا تاکہ انہیں سہارا دیا جا سکے۔ ڈپازٹ کا زرمبادلہ کے ذخائر میں رکھنے والی رقم کا کوئی دوسرا استعمال نہیں کیا جا سکتا جسے کچھ عرصے کے بعد واپس کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی رقم پر سود کی شرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ رقم پر سود کی شرح کے برابر ہی ہوتی ہے۔ پہلے سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی دو ارب ڈالرز کی رقم پر تین اعشارہ دو فی صد شرح سود تھی لیکن موجودہ رقم پر 40فی صد سود ہوگا۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس سے قبل 1998 میں جب ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکا نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تو پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ اس صورتحال میں سعودی عرب نے اس وقت بھی پاکستان کو تین ارب ڈالر سالانہ کا تیل ادھار دینا شروع کیا تھا۔ اسی طرح 2014ء میں جب غیر ملکی ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو زر مبادلہ کی ضرورت تھی تو اس وقت سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر نقد پاکستان کو دیے تھے جنہیں زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں یہ تیسرا موقع ہے جب سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد 2018ء کے اواخر میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو زرمبادلہ ذخائر کے مستحکم رکھنے کے لیے تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تو اس کے ساتھ تین سال تک مؤخر ادائیگیوں پر تقریباً نو ارب ڈالر مالیت تک کا تیل دینے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو نو ماہ تک ماہانہ ساڑھے 27 کروڑ ڈالر مالیت کا تیل فراہم کیا بھی گیا لیکن اچانک سعودی عرب نے یہ سہولت معطل کر دی تھی۔ اس کے بعد رواں برس جون میں وزیر توانائی حماد اظہر اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ریونیو وقار مسعود نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے ایک سال کی مؤخر ادائیگی پر 1.5 ارب ڈالر کا تیل فراہم کیا جائے گا۔
پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے دس ارب ڈالر تک مصنوعات بیرونِ ملک سے منگواتا ہے اور آر ایل این جی کی درآمد سے توانائی کے شعبے کی درآمدات 14 سے 15 ارب ڈالر تک پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا کہ سب ایک طرفہ ہے کسی طور درست نہیں اور اس کے لیے ملکی بقا، سلامتی اور قانون کو بالائے طاق رکھ دیا جائے کسی طرح ٹھیک نہیں ہے۔