کراچی کا مقدمہ

745

نسلہ ٹاور انہدامی کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری پہنچ گئے اور انہوں نے چیف جسٹس کے سامنے نسلہ ٹاور سمیت کراچی کے تین کروڑ مظلوم عوام کا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ روسٹرم پر بھی پہنچ گئے تھے لیکن چیف جسٹس نے اسے سیاست قرار دیتے ہوئے کہاکہ آپ کو تقریر کرنی ہے تو باہر جائیں جبکہ حافظ نعیم الرحمن نے تو ان سے درخواست کی کہ وہ نسلہ ٹاور گرانے سے قبل نسلہ ٹاور کے متاثرین کو زرتلافی اور متبادل دلوائیں اور کراچی بھر میںغیرقانونی تعمیرات میں ملوث ذمے داران کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلڈرز سے ہم نے کہہ دیا ہے وہ متاثرین کو زرتلافی ادا کرے گا۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کمشنر کراچی کو بھی حکم جاری کیا کہ ایک ہفتے کے اندر نسلہ ٹاور کو گرا کر رپورٹ پیش کی جائے ابھی دو سو افراد نسلہ ٹاور گرانے کا کام کر رہے ہیں تو پھر چار سو افراد لگا کر انہدامی کام جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے جس جرأت اور جواں مردی کے ساتھ اہل کراچی کا مقدمہ لڑا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ تین کروڑ کی آبادی میں کسی بھی سیاسی جماعت اور کراچی کے حقوق کے ٹھیکداروں کو یہ ہمت اور جرأت نہ ہوسکی کہ وہ اس پر آواز بھی اٹھاتے۔ ہمارا دین بھی اس کا حکم دیتا ہے کہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوجائو۔ عزت ماب چیف جسٹس تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی ہیں ان کا کام ہی انصاف کرنا اور رعایا کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا عدالتی نظام اتنا فرسودہ ہوچکا ہے کہ اس پر کچھ کہنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ اب تو یہ بات بھی زد عام ہے کہ کراچی شہر میں ملٹری لینڈ سمیت دیگر بڑے پروجیکٹ اور تعمیرات جس دیدہ دلیری کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں ان پر کیوں اس طرح ایکشن نہیں لیا جاتا۔ چیف جسٹس نے تو راشد منہاس روڈ پر ملٹری لینڈ پر تعمیر ہونے والے سینما ہائوس اور شادی ہال کو بھی منہدم کرنے کے احکامات صادر فرمائے تھے لیکن ابھی تک ان احکامات پر عمل کرنے کی کسی کی جرأت بھی نہیں ہوسکی ہے۔
ہر ذی شعور شخص اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ یہ تعمیرات راتوں رات تو نہیں ہوئی ہوں گی۔ نسلہ ٹاور کی فائل پر ہی تقریباً 60سے زائد سرکاری محکموں کے افسران کے دستخط اور اجازت نامے موجود ہیں اور جن کی منظوری کے بعد یہ عمارت تعمیر کی گئی۔ 12منزلہ عمارت کے 44فلیٹوں کے مکین اس فیصلے سے روڈ پر آگئے ہیں۔ اسلام آباد کے قریب بنی گالہ جو وزیراعظم عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ ہے اس کو بھی اسی طرح کی صورت حال کا سامنا تھا لیکن بنی گالہ کو خصوصی احکامات کے ذریعے قانونی شکل دے دی گئی اور اس کو ریگولرائزکیا گیا۔ لیکن نسلہ ٹاور کے مکینوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں کی گئی۔ آج ہر پاکستانی یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہے کہ ایک پاکستان میں دو قوانین کیوں ہیں؟ امیروں اور اشرافیہ کے لیے قانون اور غریب کے لیے الگ قانون کیوں؟
کراچی مسائلستان بنتا جا رہا اپنے اور غیر سب نے اس شہر کے ساتھ کھلواڑ کیا اور اس تباہ وبرباد کرنے میں کسی بھی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ چائنا کٹنگ کے ذریعے اربوں روپے کی سرکاری، رفاعی زمینوں پر قبضہ کیا گیا اور اسے اونے پونے داموں بیچا گیا۔ کراچی کے پارکوں، اسکولوں، گرین بیلٹ کو بھی فروخت کیا گیا اس تباہ حالی میں اگر ایم کیو ایم شریک تھی تو اس میں کے ڈی اے، کے ایم سی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران بھی برابر کے شریک تھے آج یہ افسران ارب پتی کھرب پتی بنے ہوئے۔ کراچی، لاہور، مری، اسلام آباد اور دبئی کے پوش علاقوں میں ان کی جائداد اور محلات موجود ہیں۔ قانون کو اس پر بھی حرکت میں آنا چاہیے، کراچی کی تباہی بربادی میں اصل ہاتھ ان مافیائوں کا ہے جنہوں نے بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھویا اور ظالموں نے پورا کی پورا شہر بیچ ڈالا اور الزام لینڈ مافیا پر لگا دیا گیا جبکہ اصل لینڈ مافیا تو یہ افسران ہیں جو جعلی فائلیں اور این او سی دے کر عوام کو دھوکا دے رہے ہیں اور ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی تباہ وبرباد کر ڈالی ہے۔ حکومت ودیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عوام کو ان مافیاوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ سرکاری اداروں کی این او سی کے باوجود نسلہ ٹاور کو مسمار کیے جانا ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ حافظ نعیم الرحمن تو نسلہ ٹاور کا انہدام رکوانے کے لیے بلڈوزر کے سامنے کھڑے ہوگئے اور وہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کراچی کی تین کروڑ عوام کو مقدمہ پیش کر کے سرخرو ہوگئے۔ کوئی اسے اگر سیاست کہتا ہے تو اللہ پاک کراچی کی دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اس طرح کی سیاست کریں اور کراچی کی مظلوم عوام کا مقدمہ ہر ایوان میں لڑا جائے۔