سود کا خاتمہ حکومت پر لازم ہوچکا ،عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل

1041
اسلام آباد: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق وفاقی شرعی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں

اسلام آباد(آن لائن+صباح نیوز+نمائندہ جسارت )وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خاتمے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے موقع پر عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے دلائل دیے میں کہا ہے کہ سود کا خاتمہ حکومت کے لیے لازم ہوچکا ہے، آئین کے مطابق ریاست 10سال میں ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کی پابند تھی،سود بھی استحصال کی ہی ایک قسم ہے،عدالتی دائرہ اختیار صرف 1980ء سے 1990ء تک نہیں تھا،1990ء سے شرعی عدالت قوانین کو غیر اسلامی قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے،عدالت عظمیٰ بھی قرار دے چکی ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے،قرآن و سنت سے متصادم کوئی بھی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت محمدنور مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انوراور جسٹس خادم حسین پرمشتمل 3رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی توعدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل انورمنصور خان اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے سودی نظام کے خلاف دلائل دیے ۔ انور منصور خان نے دلائل میں موقف اپنایا کہحکومت نے بینک سے لیا گیا قرض کی ریکوری کا قانون ہی ختم کر دیا ہے،سود حرام ہے اس لیے اس کی بنیاد پر ملنے والا قرض اب جاری نہیں ہوسکے گا، ریکوری کا قانون ختم ہونے کا مطلب ہے کہ قرض جاری ہی نہیں ہوگا ،بینک ریکوری ہی نہیں کر سکے گا تو قرض جاری ہی کیوں کرے گا،اصل سوال یہ ہے کہ اسلامی بینکاری ہے کیا،پیسے کو خریدا جاسکتا ہے نہ ہی یہ فروخت ہو سکتا،ایک ہزار روپیہ دے کر 2 ہزار مانگنا ربا کے زمرے میں آتا ہے، اشیاء فروخت ہوسکتی ہیں پیسہ نہیں۔عدالتی معاون نے موقف اپنایا کہ آئین کے دیباچہ میں کہا گیا کہ منتخب جمہوری حکومتیںتمام قوانین شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے بنائیں گی، کوئی حکومت شرعی حدود سے تجاوز کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، پاکستان واحد ملک ہے جس نے اسلامی جمہوری ریاست کا تصور دیا، پاکستان کا اسلامی جمہوری روایت کا تصورلیبیا نے بھی اپنایا،معاملات میں جدت اختیارکرنے کامقصد ہرگز اسلامی حدود سے تجاوز کرنانہیں ہے، آئین کے تحت لازم ہے کہ شریعت سے ہم آہنگ کرے، حکومت کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتی جوشریعت سے متصادم ہو، ریاست پرلازم ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو رباہ ختم کر کے زکواۃ و عشرکا نظام نافذکرے۔سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت سے کہاکہ وہ آج(جمعرات اور کل جمعہ کو)اپنے دلائل ختم کرلیں گے ۔وفاقی شرعی عدالت میںسماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے اور بعدازاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہاکہ ریاست مدینہ کا نام لینے والی حکومت نے سود کا مکروہ نظام جاری رکھا ہوا ہے،وزیراعظم اپنے نعرے میں مخلص ہیں، تو ملک کو اسلامی معیشت دیں،ہائوس بلڈنگ اور زرعی قرضوں پر سود معاف کیا جائے، ریاست یقینی بنائے کہ سرکاری ملازمین کو دینے جانے والے قرضے سود سے پاک ہوں، وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء کے فیصلے پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا،جاپان سود فری بن سکتا ہے، تو پاکستان کیوں نہیں، پرویز مشرف سے لے کر پی ٹی آئی تک سب حکومتوں نے سودی معیشت کا کاروبار کیا، ایوانوںمیں بیٹھے لوگ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام سے فائدہ اٹھاتے اور غریبوں کا خون چوستے ہیں، ہمارے حکمران خود جا کر آئی ایم ایف کے ترلے اور منتیں کر کے سود پر قرض لیتے ہیں جو ملک کی معیشت کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے،اس ملک کی بقا اورعوام کی خوشحالی اسلامی نظام کو اپنانے میں ہے۔ ایوانوں، عدالتوں، چوکوں چوراہوں میں ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔ جماعت اسلامی یکم جنوری کو ہر ضلع میں سود کے خلاف مظاہروں کا انعقاد کرے گی۔ نائب امرا جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم ، میاںمحمد اسلم اور جماعت اسلامی کی قانونی ٹیم بھی ان کے ساتھ تھی۔ وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق بحیثیت فریق مقدمہ پیش ہوئے۔ روسٹم پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ جب خیبرپختونخوا میں وزیرخزانہ تھے، تو صوبے میں اسلامی بینکاری شروع کی اور خیبر پختونخوا کو 3سال میں سود اور قرض سے پاک صوبہ بنایا تھا۔ سراج الحق نے عدالت کو بتایا کہ تب انہوں نے جرمن سرکاری بینک کے سربراہ کو سود سے پاک نظام پر 3گھنٹے بریفنگ دی تھی۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پوری قوم اس عدالت کی طرف دیکھ رہی ہے، اس قوم نے قائداعظم کے نعرے ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ‘‘ پرلبیک کہا اور الگ وطن حاصل کیا، مگر تاحال یہاں غیر اسلامی نظام نافذ ہے،مشیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ سودی نظام سے غریب اور امیر میں فرق بڑھ گیا ہے،گزشتہ بجٹ میں 33 ہزار ارب ملک نے سود میں ادا کیا، وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا ہوگا۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ سودی نظام کی وجہ سے معیشت ترقی نہیں کر رہی۔ ملک کو1957ء میں 37 کروڑ ڈالر سود پر قرض ملا اس کی وجہ سے آج تک قوم مقروض ہے،شرعی عدالت نے ماضی میں سود کے خلاف فیصلہ دیا تھا، جاپان سود سے پاک معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے، مگر پاکستان میں اس پر منصوبہ تک نہیں بنایا گیا، حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دوست اسلامی ملک سے حال ہی میں لیے قرض پر بھی سود ادا کرنا پڑے گا۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی وکلا کی جانب سے سود پروہ دلائل آج بھی پیش کیے جارہے ہیں جو ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دور میں سنتے تھے، آج بھی وہی سنے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کے بقول ظالمانہ معیشت نے غریبوں کا بھرکس نکال دیا ہے، کیا لازمی ہے کہ جب تک لاکھوں لوگ سڑک پر طویل دھرنے نہ دیں تب تک حکمران عوام کی بات نہیں سنیں گے؟ اللہ کے احکامات میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے اس پر عمل ہونا چاہیے۔ سراج الحق نے ججز سے اپیل کی کہ سودی نظام سے چھٹکارے کے لیے کردار ادا کریں تاکہ ملک و قوم کا بھلا ہو۔ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ سودی نظام کے متبادل اسلامی نظام معیشت کا ایک مکمل ماڈل موجود ہے، اسلامی نظریاتی کونسل اور مختلف کمیشن میں اس پر جامع مسودات تیار کیے ہیں، جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر خورشید احمد نے بھی اسلامی معیشت کا ایک مکمل ماڈل تیار کیا ہے، مسئلہ صرف حکومتوں کے مخلص نہ ہونے کا ہے، اگر حکمران چاہیں تو پاکستان تھوڑے عرصے میں سود سے پاک ملک بن سکتا ہے، مگر چوںکہ یہ نظام خود حکمرانوں کے فائدے میں ہے اس لیے وہ عوام کو اس ظالمانہ شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے۔ ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت نے کہا کہ ضیا الحق کے دور میں سب سے زیادہ پابندیاں جماعت اسلامی پر لگیں، جماعت اسلامی نے تمام مارشل لاز کی مخالفت کی ہے،جماعت اسلامی ملک میںاسلامی جمہوری انقلاب کے لیے جدوجہدکررہی ہے۔