کورونا کی نئی قسم سے خوف

717

ایک مرتبہ پھر عالمی ادارہ صحت متحرک ہوا ہے اور اعلان کردیا ہے کہ کورونا کی نئی قسم اومیکرون دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ اور اس اعلان کے ساتھ ہی دنیا بھر میں خوف پھیلانے کی مہم بھی شروع کردی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے بقول نئی قسم اومیکرون ممکنہ طور پر عالمی سطح پر پھیل جائے گی۔ اس نئی قسم کی وجہ سے بیماری کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے اور اس سے کچھ خطوں میں تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے 194 ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ویکسی نیشن کی رفتار بڑھائیں۔ عالمی ادارے کے ڈی جی ٹیڈروس ایڈہانوم نے اس نئی قسم کی وجہ سے کورونا کے حوالے سے نئے معاہدے کی ضرورت پر زور دیا ہے جو مئی 2024ء تک کیا جائے گا۔ اس میں وائرسز کا ڈیٹا اور ویکسینز سمیت دیگر معاملات شامل ہوں گے۔ سارا زور ایک مرتبہ پھر ویکسینز پر ہوگا۔ گویا دنیا میں ایک مرتبہ پھر بیماری سے زیادہ خوف اور ویکسینز پر زور ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ یہ ایک بیماری ہے لیکن اس کے اسباب پر بھی تحقیق کی جائے اور جس چیز کی وجہ سے یہ پھیلتی ہے اس کو بھی دور کرنے پر توجہ دی جائے۔ ماہرین اس کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ دنیا بھر میں آلودہ پانی، غلاظت، ناقص غذا اور صحت کی غیر معیاری سہولیات بیشتر بیماریوں کا بنیادی سبب ہیں۔ اگر دنیا سے بیماریوں کا خاتمہ کرنا ہے تو سب سے پہلے صفائی کا اہتمام کرناہوگا۔ لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنا ہوگا۔ صحت بخش غذائوں تک لوگوں کی رسائی آسان بنانا ہوگی۔ ویکسی نیشن تو ایک حفاظتی عمل ہے جس کے باوجود کوئی بھی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے۔ اصل کام تو لوگوں میں قوت مدافعت کو بڑھانا اور بیماری کی ہلاکت خیزی کو کم کرنا ہے۔ ویسے ہلاکت خیزی کے اعتبار سے بھی کورونا کا نمبر کافی نیچے ہے۔ دل کے امراض، فالج وغیرہ سے ہلاکتوں کا جائزہ لیں، بیماریوں کے خلاف ان کی ہلاکت خیزی کی مناسبت سے حفاظتی مہم چلائی جائے۔ اور کب تک تجرباتی ویکسین پر دنیا کو ٹرخایا جائے گا۔ جس قدر جدید ترقی، ٹیکنالوجی، تحقیق اور وسائل آج میسر ہیں اتنے کبھی نہ تھے اور دنیا ایک بیماری پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر صاحب نے بھی متنبہ کیا ہے کہ اومیکرون جس طرح پھیل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ پاکستان بھی آئے گا۔ لہٰذا ہمیں اگلے دو تین ہفتے زیادہ سے زیادہ ویکسی نیشن کرنی ہوگی۔ وزیر منصوبہ بندی بھی ویکسی نیشن پر زور دے رہے ہیں۔ ابھی یہ ویرئینٹ پاکستان نہیں آیا ہے اس لیے صوبوں اور وفاق میں ہم آہنگی ہے لیکن جوں ہی یہ پاکستان آیا حفاظتی اقدام کے نفاذ پر صوبوں اور مراکز میں کھینچا تانی شروع ہوجائے گی۔ ابھی تک تو کورونا امدادی فنڈ کے 1244 ارب روپے کا حساب نہیں ہوسکا ہے اس کا جواب ملنے سے پہلے نیا کھاتا کھلنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ عوام میں ایک تاثر ہے کہ حکمرانوں کو ہماری فکر کم ہے اور بیماری کے نتیجے میں ملنے والی امدادی رقم کے حصول کے طریقوں اور ان کو ٹھکانے لگانے کی زیادہ فکر ہے۔ وزیرمنصوبہ بندی ویکسی نیشن کے بجائے کسی ہنگامی صورت میں صنعتوں میں کام جاری رکھنے، تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے اور عوامی فلاح کے کام جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کریں۔ یہ ہر چیز کی بندش کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہترین حفاظتی انتظامات کرلیے حالاں کہ بے ہنگم لاک ڈائون، بے مقصد پابندیاں، پولیس کی بھتہ بازیاں اور پھر صنعتوں کا بھٹہ بٹھانے والے اقدامات یہ سب متوازی معیشت کا نظام تھا۔ جتنا نقصان لاک ڈائون اور صنعتوں کی بندش سے ہونا تھا اس سے کہیں زیادہ پولیس نے بھتے لے کر اپنے اور اعلیٰ افسران کے پیٹ بھرے تھے۔ وزیرمنصوبہ بندی اور حکومت اگر سنجیدہ ہیں تو عوام کی فلاح کے اقدامات کریں۔ جہاں تک اقوام متحدہ کے انتباہ اور عالمی اداروں کی رپورٹوں کا تعلق ہے تو اس کے مطابق جنوبی افریقا اور یورپی یونین کے دس اہم ممالک نئی قسم سے متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی ادارے کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یورپی یونین جیسے ممالک میں بیماری کیوں پھیل رہی ہے۔ وہاں تو صحت کے حوالے سے تمام سہولتیں موجود اور وافر ہیں۔