!لاٹ صاحب

984

حصہ دوم
علامہ اقبال کے متفرق اشعارملاحظہ کیجیے:
خاکساران جہاں رابہ حقارت منگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
ترجمہ:’’دنیا کی خاک چھاننے والوں کو حقارت سے نہ دیکھو، تجھے کیا خبر! اس گَرد میں غیور وجسور مردانِ باکمال بھی ہوتے ہیں‘‘۔ جسور کے معنی ہیں: ’’دنہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
لیکن علامہ اقبال نے ایسے ہی فواد چودھریوں کے بارے میں اظہار ِ افسوس کرتے ہوئے کہا:
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی، کہ جنہیں
خبر نہیں، رَوِشِ بندہ پروری کیا ہے
ترجمہ: ’’انقلاباتِ زمانہ کے نتیجے میں تقدیر نے انہیں سلطنت پر فائز کردیا کہ جنہیں ’’بندہ پروری‘‘ یعنی ’’عوام کے حقوق‘‘ کی پاس داری اور حُرمت کا شعور ہی نہیں ہے‘‘۔ فواد چودھری صاحب! آپ تھانیداروں پر ضرور ناز کریں، لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب خَلق خدا دیوانہ وار نکلتی ہے تو ریت کی یہ دیواریں ڈھ جاتی ہیں اور ان کے ذرّے خس وخاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں، آپ جیسوں کی تمکَنت وغرور خاک میں مل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے عیش وعشرت میں پھلے پھولے ماضی کے بدمست لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا ہے: ’’وہ کتنے ہی باغات، (میٹھے پانی کے) چشمے، لہلہاتے کھیت، عظیم الشان محلّات اور نازو نِعَم جن سے وہ لطف اندوز ہورہے تھے، (اپنے پیچھے) چھوڑ گئے، ہاں! اسی طرح ہوا اور ہم نے ان سب چیزوں کا وارث دوسروں کو بنادیا، تو نہ اُن پر چشمِ فلک روئی اور نہ زمین گریہ کناں ہوئی اور نہ انہیں مہلت دی گئی، (الدخان: 25-29)‘‘۔
فواد چودھری نے کہا: ’’جب تک ہم قانون کی عملداری کو یقینی نہیں بنائیں گے تو اس وقت تک انتہاپسندی میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں‘‘، چودھری صاحب کے نزدیک ’’قانون کی عملداری‘‘ سے مراد لوگوں پر اندھا دھند طاقت کا استعمال ہے، جو اُن کی خواہش کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوئی، اس کا انہیں شدید قلق ہے۔ ورنہ ’’قانون کی عملداری‘‘ تو ایک جامع اور ہمہ گیر معنی رکھتی ہے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر چند گھنٹوں میں تینتیس قوانین منظور کرالینا، کیا یہ آئین کی حکمرانی ہے، قانون کی عملداری ہے۔ کوئی ہمیں بتائے کہ ہاتھ اٹھاکر یا ہاں کہہ کر قانون کی منظوری دینے والوں نے اُن قوانین کا متن پڑھ لیا تھا، اُسے سمجھ لیا تھا، ہمیں یقین ہے: ’’عام پارلیمنٹیرین تو چھوڑیے، سوائے اُن بیوروکریٹس کے جنہوں نے ان قوانین کا مسوّدہ تیار کیا، کیا باقی تمام وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، معاونین اور مشیروں نے بھی اسے پڑھ لیا تھا‘‘۔
سو ’’قانون کی عملداری‘‘ اپنی حقیقی روح کے مطابق پورے نظامِ آئین وقانون میں کسی کو مطلوب نہیں ہے، صرف اپنے مطلب کی اور مَن پسند عملداری مطلوب ہے، ورنہ ہرقانون کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ’’مجالسِ قائمہ‘‘ موجود ہیں، دستوری طریقۂ کار کے مطابق بِل کو دونوں ایوانوں کی متعلقہ ’’مجالسِ قائمہ‘‘ میں جانا چاہیے، وہ ایک ایک لفظ اور اُن کے اطلاقات، اُن پر مرتّب ہونے والے اثرات اور عواقب ونتائج پر غورو خوض کریں، مناسب سمجھیں تو بعض چیزوں کو حذف کریں، بعض اضافات کریں، بعض ترامیم پیش کریں اور پھر پارلیمنٹ میں بحث کر کے ان قوانین کو منظور کیا جائے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں دو ایوانی مُقَنِّنہ کی حکمت یہی ہے کہ ایک سے زائد مرتبہ قوانین کا جائزہ لیا جائے، کیونکہ ہر قانون کا تعلق ملک کے دائمی مفاد اور مستقبل سے ہوتا ہے، لیکن یہاں چودھری صاحب کو ’’قانون کی عملداری‘‘ ہرگز مطلوب نہیں ہے، بس ذاتی اور جماعتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہے۔
فوادچودھری نے کہا: ’’برطانیہ نے مقامی لااِن فورسمنٹ نظام قائم کیا تھا، ہم نے وہ نظام تو ختم کردیا، لیکن اُس کا متبادل نظام نہ لاسکے‘‘، آپ چودھری صاحب کے ان فرمودات کو بار بار پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ برطانوی استعمار کی ’’آقائیت (Lordship)‘‘ اُن کی جینیاتی ساخت یعنی فطرت میں رچی بسی ہے اور رہ رہ کر انہیں یاد آرہی ہے۔
فواد چودھری نے کہا: ’’1980 اور 1990 کی دہائی میں ریاستی پالیسی یا حکمتِ عملی کے سبب انتہا پسندی کو فروغ ملا‘‘، وہ اس میں مدارس سے زیادہ عصری تعلیمی اداروں (اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں) کو موردِ الزام ٹھیراتے ہیں۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ اُس وقت ریاست ِ پاکستان نے جو بھی حکمتِ عملی اختیار کی، وہ ملک وملّت اور ریاست وحکومت کے مفاد میں تھی، ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ لیکن آج اگر محض پراپیگنڈے کے طور پر نہیں، بلکہ ریاستی اور حکومتی اداروں کی حقیقت پسندی پر مبنی رائے یہ ہے کہ یہ سب کچھ غلط تھا، تو اس ساری حکمتِ عملی کے بارے میں ایک با اختیار اور غیر جانبدار کمیشن بنایا جائے، جو ذمے داروں کا تعیّن کرے اور سب کچھ تاریخ کے ریکارڈ پر لائے، یقینا جنرل پرویز مشرف کا دور اُسی کا تکملہ اور تتمہ تھا۔ یہ بھی بتایا جائے کہ یہ پالیسی کہاں بنی، کس نے بنائی اور اس کے طویل المقاصد اہداف کیا تھے اور اس کی قیمت ملک وملّت نے کیا ادا کی۔ ریکارڈ پر ہمیں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ میں امریکا کا حلیف اور آلۂ کار بننا درحقیقت پاکستان کے مفاد میں تھا، تو ہم امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بار بار یہ مطالبہ کیوںکرتے رہے ہیں کہ ہماری خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔ دوسری جانب امریکا یہ الزام لگارہا ہے کہ پاکستان نے اُسے دھوکا دیا، دھوکے میں رکھا اور پورا تعاون نہیں کیا، جبکہ اس کے عوض پاکستان کو ’’اتحادی اعانتی فنڈ‘‘ کے نام پر رقوم دی جاتی رہی ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے ترک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’ہمیں کرائے کی فوج سمجھا جاتا رہا ہے‘‘۔ الغرض فواد چودھری فیشن کے طور پر لبرل بنتے ہیں، اصل میں وہ اقتدار پرست اور جاہ پرست ہیں، ایسے لوگوں کا کوئی اصول، کوئی نظریہ اور کوئی آدرش نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کی وفاداریاں کسی کے ساتھ دیرپا اور لازوال نہیں ہوتیں، ان کی وفاداری صرف اور صرف کرسیِ اقتدار سے ہوتی ہے، اُس پر کوئی بھی براجماں ہو، وہ ان کا آقا ہوتا ہے اور جب وہ مسندِ اقتدار سے اتر جائے تو ان کا معتوب بن جاتا ہے، ان کا مسلک ومشرب یہی رہا ہے:
ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے
من قبلہ راست کردم برسَمتِ کج کلاہے
ترجمہ: ’’ہر قوم کا اُس کی دانست میں ایک راہِ راست ہوتا ہے، ایک دین ہوتا ہے اور ایک سَمت ِ قبلہ ہوتی ہے، مگر میں نے ’’کج کُلاہ‘‘ یعنی صاحبِ تخت وتاج کو اپنا قبلہ گاہ بنادیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)
مفتی منیب الرحمن
اس شعر کا مورخین نے جو پس منظر لکھا ہے، اس کی رو سے اس کا تعلق خواجہ نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو سے ہے، لیکن عام طور پر آج کل اسے ’’اقتدار پرستوں‘‘ کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ’’کُلاہ‘‘ ایک خاص ہیئت کی ٹوپی ہوتی ہے اور ’’کج کلاہ‘‘ سے مراد ’’ٹیڑھی ٹوپی والا‘‘، کبھی حسین لوگ نازو نخرے کے طور پر یہ ادا اختیار کرتے تھے، چنانچہ لغت میں اس کے معنی ہیں: ’’بانکا، معشوق، اکڑ کی وجہ سے ٹیڑھی ٹوپی پہننے والا، مغرور اور بادشاہ ‘‘، مگر آج کل اس کا عمومی استعمال وہی ہے جو ہم نے سطورِ بالا میں عرض کیا ہے۔
فواد چودھری سے ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے اپنی حکومت کی طرف سے انتہا پسندی، شدّت پسندی اوردہشت گردی کی متفقہ اور مسلّمہ تعریف کرائیں تاکہ پی ٹی آئی سمیت سب جماعتوں کو اُن کے ماضی سمیت اُس معیار پر جانچا جائے اور سب کے لیے ایک ہی ضابطہ اور ایک ہی اصول وضع ہو، یہ روش قابلِ قبول نہیں ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نا مۂ سیاہ میں تھی
آپ ہی کی بیان کردہ تعریف کے مطابق پی ٹی آئی کے 2014 کے دھرنے پر حکم لگایا جائے گا، کیا عوام کو یہ تلقین کرنا: ’’ریاست کو ٹیکس نہ دیں، یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں‘‘ حبّ الوطنی ہے، ’’مارو، جلائو، گھیرائو، آگ لگادو‘‘ کے نعرے اعلیٰ درجے کی امن پسندی کی علامت ہیں اور مارنے، جلانے، گھیرائو کرنے اور آگ لگانے کی تلقین کرنا اعلیٰ درجے کی حبّ الوطنی ہے، بشرطیکہ یہ آپ سے سرزد ہو۔ نیز مسلم معاشرے میں مذہب کا حوالہ جرم کیوں قرار پاتا ہے، یہ دستور کے کس آرٹیکل اور قانون کی کس دفعہ کا تقاضا ہے، دستور تو قانون سازی کو قرآن وسنّت کے دائرے میں مقیّد کرتا ہے، اُس سے انحراف کی اجازت نہیں دیتا، دستور کا آرٹیکل 31ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرے، دستور میں فیڈرل شریعت کورٹ، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ اور اسلامی نظریاتی کونسل کس مرض کی دوا ہیں۔ کیا قرآن وسنّت اور مذہب ایک دوسرے کی ضد ہیں، تو حضورِ والا! جب تک موجودہ دستور نافذ العمل ہے، مذہب کا حوالہ تو آئے گا، خواہ آپ کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، (البقرہ: 208)‘‘۔ ہمارے لبرلز کو صرف نجی عبادات اور اخلاقیات کی حد تک اسلام گوارا ہے، بشرطیکہ انہیں ان کا مکلف اور جوابدہ نہ بنایا جائے۔ قرآن کی وہ تعلیمات جو نظمِ اجتماعی سے متعلق ہیں، قوتِ نافذہ کا تقاضا کرتی ہیں، اُن کے نفاذ کے لیے اسلام کا اقتدار پر حاکم ہونا ناگزیر ہے، یہ انہیں مطلوب نہیں ہیں، بلکہ ان کا ذکر بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے، شاید العیاذ باللہ! نظمِ اجتماعی سے متعلق قرآن وسنّت کی تعلیمات اُن کے نزدیک منسوخ ہیں یا معطّل ہیں یا قابلِ عمل نہیں ہیں، اسی لیے ریاست وسیاست میں مذہب کا حوالہ اُن پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق عمل نہ کرنے کو قرآن کفر، ظلم اور فسق قرار دیتا ہے، مولانا امین احسن اصلاحی المائدہ: ۴۴ تا ۴۷ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت بھی اگرچہ یہود کے جرائم کے بیان کے سیاق میں ہے، لیکن یہی جرم مسلمانوں سے صادر ہو (جس کی شہادت ہرمسلمان ملک میں موجود ہے) تو میں نہیں سمجھتا کہ اُس کا حکم اس سے الگ کس بنیاد پر ہوگا، خدا کا قانون تو سب کے لیے ایک ہی ہے، (تدبر قرآن)‘‘۔
مفسرین کرام نے ان آیات کی جو تفسیر بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے : اگر کوئی اعتقاداً اللہ کے احکام کا منکر ہے تو وہ کفرِ اعتقادی اور کلامی ہے، اگر کوئی اعتقاداً تو اللہ کے احکام کو مانتا ہے، لیکن اُن پر عمل کرنے سے انکاری ہے، تو یہ کفرِ عملی ہے، اسے سیدنا عبداللہ بن عباس نے پہلے کفر سے کم تر قرار دیا ہے، اگر اپنی سرکشی کی بنا پر اللہ کی شریعت پر عمل نہیں کرتا، اللہ اور اس کے بندوں کی حق تلفی کرتا ہے، تو یہ صریح ظلم ہے، اگر اپنی بشری کوتاہی کی بنا پر عمل نہیں کرتا تو یہ فسق ہے، جیسے آج کل بالعموم مسلمان اس میں مبتلا ہیں۔ البتہ فواد چودھری کا یہ کہنا بجا ہے: ’’ہمیں بھارت سے نہیں، اندر سے خطرہ ہے‘‘ اور سب سے بڑا خطرہ فواد چودھری جیسے لوگ ہیں، جو دستوری مسلّمات کے بارے میں خود بھی ذہنی اور فکری انتشار میں مبتلا ہیں اور قوم کو بھی اُسی میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ دستور اور قانون کو موم کی ناک بنانا چاہتے ہیں، جدھر چاہیں موڑ دیں، جو مَن پسند تاویل چاہیں کردیں، کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ ہو، وہ اپنے آپ کو آخری اور قطعی حجت سمجھتے ہیں، مگر اسلام نے یہ درجہ صرف خاتم النبیّٖنؐ کو عطا کیا ہے: آپؐ کی ہر بات حجتِ قطعی اور غیر مشروط طور پر فرض اور لازم ہے، یہاں چون وچَرا کی گنجائش نہیں ہے۔