کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے

2181

زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بناکر
ہم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے
گلزار صاحب کی نظم کتاب سے کم ہوتے تعلق کا نوحہ ہے۔ جن ہاتھوں میں پہلے کتاب ہوا کرتی تھی اب بڑی اسکرین والا موبائل ہوتا ہے۔ کتاب سے مطالعہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ برقی کتاب سے کسی پیکر جمال کا سراپا، خطوط بدن، حسن اور موزونیت کو صرف دیکھا جاسکتا ہے کتاب اسے چھونے، لمس محسوس کرنے اور لطف لینے کا نام ہے۔ برقی کتاب کینوس پر بیٹھا پرندہ ہے جبکہ کاغذی کتاب پرندے کو چھونے اس کے پروں کی نرماہٹ اور خوبصورتی دیکھنے اور چومنے کا نام ہے۔ اسکرین پر مطالعہ سے کتاب پڑھی تو جاسکتی ہے لیکن کتاب قاری پر سحر طاری نہیں کرتی۔ کاغذ کا لمس، صفحہ پلٹنے کا ذائقہ ایک جیتے جاگتے وجود کا احساس دلاتا تھا، قریب ہوکر پگھلنے کا احساس جاگتا تھا۔ کتابوں پر پڑے دھبوں، صفحہ کے مڑے ہوئے کونوں، ٹوٹی ہوئی جلد سے کتنی ہی یادیں جڑی ہوتی تھیں، کتنی ہی نیندوں کے خمار اور شب خون کتاب ختم ہونے کا انتظار کرتے کرتے سوجاتے تھے۔ کتاب ہاتھوں سے نکل کر کب سینے پر آرہی اور خواب مطالعہ کی دیوار ٹاپ کر کتاب پر غالب آرہے پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلتی، کتاب سینے سے اٹھا، صفحہ موڑ سرھانے رکھنے میں جو لطف تھا وہ سیاہ بٹنوں کی کلک سے شٹ ڈائون کرنے میں کہاں۔ ایسا لگتا ہے کتاب کو شٹ اپ کہا جارہا ہے۔
ناصر کا ظمی کا شعر ہے:
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا
مطالعہ کے باب میں یہی وحشت ہماری عادت تھی اور ہے۔ والد صاحب مرحوم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائیں، سوتے نہیں تھے جب تک مطالعہ نہ کرلیتے۔
جب کتابوں سے میری بات نہیں ہوتی ہے
تب میری رات میری رات نہیں ہوتی ہے
ان ہی کو دیکھ دیکھ کر نونہال، تعلیم وتربیت، بچوں کی دنیا ہمارے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ اس زمانے میں گلی گلی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں۔ کرایہ بیس تیس پیسے روزانہ۔ ہم ابن صفی مرحوم کا ایک ناول لے جاتے اور اگلا لے آتے تھے۔ لمبے راستے سے پڑھتے ہوئے جاتے اور پڑھتے ہوئے آتے تھے۔ اور منتظر رہتے تھے کب والد صاحب سوئیں۔ جیسے ہی وہ سوتے ناول ہمارے ہاتھوں میں ہوتا۔ جب تک پورا پڑھ نہ لیتے سوتے نہ تھے۔ الف لیلہ، رستم وسہراب، گل بکائولی، قصہ حاتم طائی، ٹارزن، ابن حسن نگار باتصویر اور اسی قبیل کی سیکڑوں چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی ہم نے بچپن ہی میں پڑھ ڈالی تھیں۔ ابن صفی کے ناول ختم ہوئے تو ہم این صفی، نجمہ صفی ایچ اقبال اور مظہر کلیم، ایم اے راحت، اگاتھی کرسٹی اور جیمز ہیڈلے چیز کی طرف آگئے۔ نسیم حجازی اسی زمانے میں ہمارا عشق بنے۔ سب رنگ ڈائجسٹ اور محترم شکیل عادل زادہ کا انتخاب اور ان کی تحریریں اردو ڈائجسٹ، عالمی ڈائجسٹ، سسپنس اور دیگر قابل ذکر ڈائجسٹ بھی جب تک پڑھ نہ لیتے چین نہیں پڑتا۔ بعد میں منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، منشی پریم چند، ڈپٹی نذیر احمد، پروین شاکر، فیض احمد فیض، احمد فراز، خلیل جبران، میکسم گورکی، موپساں، محمد خالد اختر، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، ابن انشا، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن، مشتاق احمد یوسفی اور نجانے کس کس کو ہم نے پڑھ ڈالا تھا۔ یہ سب مطالعہ گلی گلی کھلی چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کا فیض تھا جن کا تصور بھی اب کہیں موجود نہیں۔ کالج پہنچے تو شبلی نعمانی، مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا ابوالکلام آزاد، سید محمد قطب، اشرف علی تھانوی اور دیگر اکابرین کی کتابوں نے ہمارے مطالعے کا رخ ہی تبدیل کردیا زندگی بھر کے لیے۔
اسی زمانے میں صدر میں لب سڑک کتابوں کے پتھارے ہی پتھارے ہوتے تھے۔ اب ان کی جگہ پرانے کپڑوں اور جوتوں کے ٹھیے لگ گئے ہیں ایلفی جو اب زیب النساء اسٹریٹ ہے اور صدر میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے کیسی کیسی معیاری کتابوں کی دکانیں تھیں۔ اب زیب النسا اسٹریٹ پر ایک بھی کتابوں کی دکان نہیں سوائے سناروں کی دکانوں کے۔ بقیہ صدر کا بھی یہی حال ہے۔ یہ کہنا کتا بیں مہنگی ہوگئی ہیں درست ہے۔ غریب اور تنخواہ دارطبقے کے لیے کتاب خریدنا جیب کے بس سے باہر کی بات ہے اور پھر کچھ اس جذبے کو بھی حالات نے مار کررکھ دیا ہے ایرسمس نے جسے یوں بیان کیا تھا ’’جب مجھے چند پیسے ملتے ہیں تو میں کتابیں خریدتا ہوں اور اگر تھوڑے بہت بچ جائیں تو اس سے کھانا یا کپڑے خریدتا ہوں‘‘۔ لیکن ہم نے انہیں بھی کتابوں کی مہنگائی کا شکوہ کرتے دیکھا جو ہوٹلوں میں ہزار دوہزار کا کھانا آرام سے کھا لیتے ہیں لیکن سات سو آٹھ سو کی کتاب خریدنا انہیں مشکل لگتا ہے۔
برقی کتابوں کی صورت یہ انہیں مفت دستیاب ہوجاتی ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر، واٹس اپ اور نجانے کون کون سی سائٹس نے تفصیلی مطالعہ کی عادت کم اور بہت کم کردی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب سال میں ایک دو مرتبہ ایکسپو پر کتابوں کی نمائش لگتی اور لوگوں کارش دیکھتے ہیں خصوصاً نوجوانوںکا تو ڈھارس بنتی ہے کہ سعود عثمانی کا یہ خیال غلط ثابت ہوگا کہ
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ رو ٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں کے عشق کی