اُف یہ مہنگائی

182

مہنگائی اپنے عروج پر ہے ہر شخص پریشان ہے۔ روزبروز اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، تماشا تو یہ ہے کہ جیسے ہی قیمت میں اضافے کا اشارہ ملتا ہے اسی لمحے سے عملدرآمد شروع ہوجاتا ہے لیکن اگر محنت کش کی اجرت میں تھوڑی بھی بڑھوتری ہوتی ہے تو اسے حاصل کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ دیر یا سویر یہ اضافہ سرکاری، نیم سرکاری اداروں اور فیکٹریز میں تو مل جاتا ہے لیکن دکانوں، پٹرول پمپس اور دیگر اس طرح کی جگہوں پر کام کرنے والوں کو یہ اضافہ ملتا ہی نہیں کیونکہ اگر یہ ورکر مالکان سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مالکان صاف انکار کردیتے ہیں۔ بڑی بڑی دکانوں کے مالکان نے ایک فارمولا بنایا ہوا ہوتا ہے اور بڑھوتری کی ایک حد مقرر کی ہوتی ہے جب ورکر اس مقررہ حد کے قریب پہنچنے لگتا ہے تو مالکان اس کے کام میں نقص نکالنے لگتے ہیں۔ بات بے بات اسے جھڑکنے لگتے ہیں وہ ورکر انہیں برا لگنے لگتا ہے، وہ اسے اس قدر پریشان کرتے ہیں کہ وہ واقعی کام میں کوتاہی کرنے لگتا ہے۔ اس طرح مالکان کو موقع مل جاتا ہے یا پھر تنگ آکر وہ خود ہی کام چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور مالکان کم اجرت پر دوسرے ملازم رکھ لیتے ہیں۔ اس لیے ملازمین بیروزگاری کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔
حال ہی میں سندھ حکومت نے کم از کم اجرت 25 ہزار مقرر کرکے مستحسن اقدام کیا
ہے۔ یہ اجرت کن لوگوں کو ملے گی ان کی کیٹیگریز بھی بتائی گئی ہے۔ ان میں غیر ہنر مند افراد، پمپس پر کام کرنے والے، اسکول ٹیچرز، چھوٹے کارخانوں میں کام کرنے والے، مل ورکرز، دکانوں کے ملازمین اور دیگر شامل ہیں۔ جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جاچکا ہے لیکن کیا ان حالات میں یہ افراد اس اجرت کو حاصل کرسکیں گے۔ کیا یہ محنت کش اس اجرت سے محروم اور اپنے آجروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے رہیں گے۔ قانون تو بنادیے جاتے ہیں لیکن ہمارا سسٹم اتنا ناقص اور کمزور ہے کہ ایک دکاندار بھی نہایت دیدہ دلیری سے قانون کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی دکانوں کے ملازمین، جگہ جگہ قائم اسکولز کے ٹیچرز اور اسی طرح کے دوسرے ملازمین آج بھی آٹھ سے دس ہزار روپے میں محنت و مشقت کررہے ہیں۔ جبکہ اسکولز کے مالکان اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچرز چاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس طرح کی شکایات سننے اور اس کا ازالہ کرنے کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ موجود ہے۔ لیکن وہاں تک پہنچنے والا سنوائی سے قبل ہی ملازمت سے محروم کردیاجاتا ہے۔ کیا اس اندھیر نگری کا کوئی سدباب موجود ہے یا یہ چوپٹ راج اسی طرح چلتا رہے گا۔