امریکی و اسرائیلی درندگی اور فلسطینیوں کے حقوق

419

جب بھی اسرائیل اپنی بھرپورسفاکی اورطاقت کے نشے میں چور ہوکر راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ کو انتہائی بہیمیت کے ساتھ نشانہ بناتاہے توامریکامیں ڈیموکریٹک اورری پبلکن دونوں جماعتوں کاایک ہی بیانیہ سننے میں آتاہے کہ اسرائیل کواپنے دفاع کاحق حاصل ہے ۔کوئی بھی یہ دلیل نہیں دے رہاکہ ناجائزریاست اسرائیل یاکسی بھی اورملک کو اپنے لوگوں کے دفاع کاحق حاصل نہیں، پھریہ الفاظ سال بہ سال،جنگ بہ جنگ کیوں دہرائے جارہے ہیں؟اوریہ سوال کبھی کیوں نہیں اٹھایاگیاکہ جائزحق دارفلسطینیوں کے حقوق کیاہیں؟اورہم اسرائیل اورفلسطین میں تشددکانوٹس صرف اس وقت کیوں لیتے ہیں جب فلسطینیوں کے داغے ہوئے راکٹ اسرائیل میں گررہے ہوتے ہیں؟اس بحرانی کیفیت میں امریکاکودیرپاجنگ بندی یقینی بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کرناچاہیے۔ہمیں یہ بات سمجھناہوگی کہ اگراسرائیل کی طرف داغے جانے والے حماس کے راکٹ ناقابل قبول ہیں توپھرآج کایہ سنگین تنازع ان راکٹس سے پیدانہیں ہوا۔
بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں فلسطینی خاندان ایک مدت سے جبری نکالے جانے کے خطرے سے دوچارحالت میں جی رہے ہیں۔ ایک ایسا نظام وضع کرکے نافذ کردیا گیاہے جس میں انہیں جبراً بے گھرکرناممکن ہے۔چندہفتوں کے دوران انتہاپسند یہودی آباد گاروں نے ان فلسطینیوں کوبے گھرکرنے سے متعلق اپنی کوششیں تیزکردی ہیں اورالمیہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کوان کی زمینوں یاعلاقوں سے بے دخل کرنے کایہ عمل سیاسی اورمعاشی دباوکے ایک بڑے نظام کامحض ایک حصہ ہے۔ہم ایک مدت سے دریائے اردن کے مغربی کنارے اورمشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی آبادکاروں کے قبضے اورغزہ کی اقتصادی ناکا بندی دیکھتے آئے ہیں،جس نے فلسطینیوں کے لیے حالات کوناقابلِ برداشت بنایا ہے۔ غزہ کی آبادی کم وبیش بیس لاکھ ہے اوروہاں70فیصدنوجوان بے روزگار ہیں۔ ان میں مستقبل کے حوالے سے قطعاًکوئی واضح امیدبھی باقی نہیں رہی۔
ساتھ ہی ساتھ ہم نے نیتن یاہوکی حکومت کواسرائیل میں آبادفلسطینیوں کے لیے بہتر مستقبل کے امکانات کوکم سے کم کرنے اورانہیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے۔ نیتن یاہوکی حکومت نے فلسطینیوں کے علاقوں پرقبضہ کرکے وہاں یہودیوں کوآباد کرنے کی پالیسی پرعمل جاری رکھاہے،جس کے نتیجے میں دوریاستوں والاحل اب کم و بیش ناممکن ہوکررہ گیاہے۔ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کے تحت اسرائیل کے یہودی اورغیریہودی شہریوں کے درمیان بہت واضح خطِ امتیازکِھنچ گیاہے۔
کیاان تمام حقائق سے حماس کے حملوں کوجوازنہیں ملتا؟ یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ اسرائیل اورفلسطین دونوں سرزمینوں میں اسرائیلی حکومت واحدخودمختار اتھارٹی ہے مگراس نے امن اورانصاف کے لیے فعال ہونے کے بجائے غیرمساوی اورغیرجمہوری تصرف اورغیرقانونی جبری پالیسیوں کو یقینی بنانے پرزیادہ توجہ دی ہے۔اسرائیل میں ایک عشرے سے بھی زائدمدت سے انتہائی دائیں بازوکی حکومت رہی، جس نے نیتن یاہوکی قیادت میں عدم رواداری اورمطلق العنانیت پرمبنی نسل پرست قوم پرستی کوفروغ دینے کے لیے مجرمانہ کام کیا ہے۔ اقتدارکوطول دینے اور کرپشن پرمحاسبے سے بچنے کے لیے نیتن یاہونے اتماربین گوِراوراس کی انتہاپسندجیوئش پاورپارٹی کوجائزحیثیت دینے کی بھرپورکوشش کی ہے۔انہیں حکومت کاحصہ بنایاگیاہے۔یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن نسل پرستوں نے مقبوضہ بیت المقدس کی سڑکوں پرٹولوں کی شکل میں فلسطینیوں کوقتل کیاوہ آج اسرائیل کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں۔
یہ خطرناک رجحانات اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی طورمنفردیاحیرت انگیز نہیں۔ یورپ، ایشیا، جنوبی امریکااورامریکامیں،مطلق العنان قومی تحریکوں کوتیزی سے ابھرنے اور مقبولیت پانے کی تاریخ سے کسی نہیں کچھ نہیں سیکھا۔یہ تحریکیں بہت سوں کے لیے خوشحالی، انصاف اورامن یقینی بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے نسلی اورلسانی بنیادپرپائی جانے والی نفرت کوبروئے کارلاکرچندایک کے لیے اقتدار اور کرپشن کی راہ ہموارکی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ ان دنوں سیاسی کارکنوں کی ایک ایسی نسل بھی ابھرتی دیکھ رہے ہیں جو انسانی ضرورتوں اورسیاسی مساوات کی بنیادپر معاشروں کی تعمیرچاہتی ہیں۔گزشتہ موسمِ گرما میں امریکاکی سڑکوں پرجارج فلائڈکے قتل کے بعدایسے بہت سے کارکنوں کواحتجاج کرتے ہوئے دیکھاگیا۔اب یہ کارکن ہمیں اسرائیل اورفلسطینی علاقوں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
امریکامیں ٹرمپ کے بعد اقوام عالم کویہ توقع ہے کہ دنیاکے حوالے سے انصاف اورجمہوریت پرمبنی طرزِفکروعمل اپنائی جائے۔معاملہ غریب ممالک کوویکسین کی فراہمی کاہویاماحول میں پیداہونے والی خرابیوں سے لڑنے کایاپھرسیاسی معاملات کی درستی کا،امریکاکوہر محاذپر کلیدی اورقائدانہ کرداراداکرناہے۔امریکاکوتنازعات کے خاتمے کی راہ ہموارکرتے ہوئے اشتراکِ عمل اورمعاونت کی راہ ہموار کرنی ہے لیکن حالیہ فلسطین اوراسرائیل کے معاملے میں ان کے بیانات نے بڑامایوس کیاہے۔
امریکااسرائیل کوہرسال چارارب ڈالرکی امداددیتاہے۔ایسے میں نیتن یاہوکی دائیں بازوکی انتہاپسندحکومت اوراس کی غیرجمہوری اورنسل پرستانہ اقدامات کے حوالے سے جوبائیڈن کومعذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے تھا۔ انہیں اب اپناراستہ تبدیل کرکے برابری کے اصول پرمبنی طرزِفکروعمل اپنانی چاہیے،جوشہریوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون کوبالا دست اورمضبوط کرتی ہواورساتھ ہی ساتھ امریکی قانون کوبھی بالادستی عطا کرتی ہوجس کے تحت امریکی فوجی امدادکسی بھی حالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب معاشروں کونہیں ملنی چاہیے۔
نئی اپروچ یہ ہونی چاہیے کہ جس طوراسرائیل کوسلامتی کے ساتھ اورسکون کی حالت میں رہنے کاحق حاصل ہے بالکل اسی طور فلسطینیوں کوبھی محفوظ اورخوش حال زندگی بسرکرنے کا حق حاصل ہے۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو بہتر مستقبل کی تیاری میں مدد دینے کے حوالے سے امریکا بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر امریکا عالمی سطح پربنیادی حقوق کے حوالے سے تواناآوازبنناچاہتاہے توہمیں انسانی حقوق پربین الاقوامی معیارات کی بالا دستی ہرحال میں یقینی بنانی چاہیے،چاہے ایساکرناسیاسی اعتبارسے کتناہی مشکل ہو۔ہمیں محسوس کرناہوگاکہ فلسطینیوں کے حقوق اوران کی زندگیوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اسرائیلیوں کے حقوق اورزندگی کی۔