آباد کا سوال۔ جواب کسی کے پاس نہیں

498

آباد کے چیئرمین محسن شیخانی نے حکومت سے ایسا سوال کرلیا ہے جس کا جواب حکومت کے پاس تو ہرگز نہیں ہے اور کوئی ادارہ اس مسئلے کا حل بتاسکتا ہے تو سامنے آجائے۔ اور وہ سوال ہے کہ عمارتوں کو بچانے کے لیے کس محکمے سے این او سی لیا جائے۔ ایسی اتھارٹی بتائی جائے کہ این او سی کے بعد کوئی ادارہ یا عدالت عمارت گرانے کا حکم نہ دے سکے۔ اس کے نتیجے میں بلڈرز اور عوام کا سرمایہ محفوظ رہ سکے۔ محسن شیخانی کے سوال کا جواب شاید عدلیہ کے پاس بھی نہیں ہوگا جس کے ایک حکم نے 16 اداروں کو غیر معتبر کردیا ہے۔ یہ بات واقعی اہم ہے کہ 16 اداروں سے این او سی لینے کے بعد عمارت منہدم کردی گئی۔ اسی شارع فیصل کی اسی پٹی پر میٹروپول ہوٹل سے ایئر پورٹ تک شارع فیصل کے دونوں طرف ایسی تعمیرات ہیں جو اسی طرح اضافی زمین پر تعمیر ہوئی ہیں۔ ایئرپورٹ تک کی عمارتوں کے بارے میں کیا فیصلہ آئے گا اور ملٹری لینڈ پر تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کی صرف یقین دہانی کیوں ہوئی۔ سینما اشتہاری سائن بورڈز اور اضافی دیوار بھی توڑنے کا حکم بھی دیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ محسن شیخانی نے تو کئی مسائل اٹھائے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بلڈرز صرف نسلہ ٹاورز کی وجہ سے پریشان نہیں ہیں بلکہ حکومت اور ملکی قوانین کے غیرمتوازن ہونے کے سبب بھی کام میں مشکلات محسوس کرتے ہیں ان کا یہ اظہار تشویش بھی ہے کہ منصوبوں کی منظوری میں کراچی اور پنجاب میں فرق تشویشناک ہے۔ یہ بات واقعی افسوسناک ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام میں نفرت کے بیج پیدا ہوں گے۔ جو پہلے ہی آپس کے انتشار کا شکار ہیں۔ یہ بات تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ تعمیراتی صنعت ملکی معیشت میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے کتنا روزگار پیدا ہوتا ہے ملکی معیشت میں جی ڈی پی کو 4.9 فیصد تک پہنچانے میں اس صنعت کا ہاتھ ہے لیکن وزیراعظم تقریروں میں تو تعمیراتی صنعت کی تعریف کرتے ہیں اور اقدامات اسی صنعت کی تباہی کے ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مقامی بلڈرز کو مشکلات کا شکار کرکے بیرون ملک سے بلڈرز کی بڑی بڑی کمپنیوں کو لایا جارہا ہے اور اصل بلڈرز مافیا کو وہی ہوں گے۔ غلط این او سی لینے اور دینے والوں اور پیسے کھانے اور کھلانے والوں کو پہلے مرحلے میں گرفت میں لیا جائے یہ کام حکومت کا ہے ایسے معاملات عدالتوں تک جانے ہی نہیں چاہئیں۔ عدالتوں میں تو ہزاروں ضروری مقدمات برسوں سے زیر التوا ہیں ان کو بھی تو حل ہونا چاہیے۔