مزدوروں کے فلاحی ادارے مالکان کے آلہ کار بن گئے

360

کراچی ( رپورٹ : قاضی سراج )حکومت کے فلاحی ادارے مزدور مفاد میں کام کرنے کے بجائے مالکان کے آلہ کار بن گئے ہیں‘ محنت کشوں کو ان اداروں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا‘ کئی ویلفیئرادارے کرپشن کے گڑھ بنے ہوئے ہیں ‘سرکار کی جانب سے کسی بھی قسم کی مالی فنڈنگ نہیں کی جاتی ہے‘فلاحی اداروں کے انتظامی اخراجات فنڈز سے کیے جاتے ہیں‘ عہدیداروں اور گورننگ باڈیز کا تقرر اور انتخاب نمائشی طورپر رہ گیا ہے‘ بالادستی ریاستی اداروں کی ہوتی ہے‘ کروڑوں مزدوروں کو ان تنظیموں کا علم ہے نااپنے حقوق کا‘ چند لاکھ مزدور فلاحی تنظیموں سے مستفید ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مزدور رہنما قاسم جمال‘ سندھ لیبر فیڈریشن کے ڈپٹی سیکرٹری شیخ مجید‘پاکستان فوڈز ورکرز فیڈریشن اور کوکا کولابیوریجز کے رہنما سفیر مغل‘انصاف لیبر فیڈریشن مردان کے سابق صدر اور مزدور رہنما لطیف خان یوسفزئی‘ نے جسارت کے سوالحکومت کے فلاحی اداروں کی کارکردگی مزدوروں کی نظر میں ؟ کے جواب میں کیا۔نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جنرل سیکرٹری محمد قاسم جمال نے کہا کہ محنت کشوں کے ادارے سرمایہ داروں کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ای او بی آئی ،ورکرز ویلفیئر بورڈ اور سوشل سیکورٹی کرپشن کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔سندھ حکومت کے واضح احکامات کے باوجود محنت کشوں کوکم از کم اجرت25ہزار روپے ادا نہیں کی جارہی ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں سیفٹی قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہے جس کی وجہ سے آئے دن فیکٹریوں اور کارخانوں میں آگ لگنے اور دیگر حادثات معمول بنے ہوئے ہیں۔ویج بورڈ میں مزدوروں کے بجائے این جی اوز کے رہنمائوں کو نمائندگی دی گئی ہے جس کی وجہ سے وزارت محنت اور سندھ حکومت کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سرکاری کی زیرسرپرستی چلنے والی تنظیموں واداروں کے عہدیداروں کی اکثریت نیب زدہ ہے‘ مزدور طبقہ ان سے حق نہیں مانگ سکتا ‘ ایسا محسوس ہوتا ہے محنت کش اپنا حق نہیں ان سے بھیک مانگ رہا ہے‘سیاسی وریاستی سرپرستی میں چلنے والے این جی اوز کے رہنما اور عہدیدار خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔سندھ لیبر فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری شیخ مجیدنے کہا کہ سہ فریقی فلاحی اداروں میں مزدوروں کی فلاحی اسکیموں اور سہولیات کی فراہمی کے لیے سرکار کی جانب سے کسی بھی قسم کی مالی فنڈنگ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صنعت کاروں کی جانب سے دی جانے والی رقم سے سوشل سیکورٹی، ویلفیئر بورڈ اور EOBI کے ذریعے مزدوروں کو مروجہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جبکہ ان تمام اداروں کے انتظامی اخراجات، تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی اس حاصل شدہ فنڈ سے کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں محض نمائشی طور پر ان اداروںمیں سہ فریقی گورننگ باڈیوں کی تشکیل تو کی گئی ہے لیکن بالادستی ریاستی و سیاسی اہلکاروں کی ہوتی ہے۔ بطور خاص آجر و اجیر کی نمائندگی کا تو کوئی معیار نہیں ہے جو کہ ذاتی پسند و ناپسند اور غیر متعلقہ افراد سے کی جاتی ہے۔ جبکہ حقیقی نمائندگی کے اہل افراد کو ہمیشہ نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ تمام ادارے (وفاقی و صوبائی) بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں، بدانتظامی، اقربا پروری، مالی بے قاعدگیوں اور کرپشن کا گڑھ ہیں۔ ان کی انتظامیہ NAB زدہ ہے۔ لیکن ریاستی و سیاسی سرپرستی میں یہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کو بھی پامال کررہے ہیں۔ طبی سہولیات کا حصول ہو یا جہیز و تعلیمی گرانٹ یا ضعیف العمری پنشن کا حصول، مزدور و حق دار ایک دروازے سے دوسرے دروازے کے چکر ہی کاٹتا رہتا ہے اور بمشکل تمام نذرانہ کی ادائیگی کے بعد ہی اپنا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ مزدور ان سے بھیک طلب کررہا ہے۔ اس تمام تر صورت حال کا ذمے دار صرف ان اداروں کے سرکاری اہلکار ہی نہیں بلکہ ان کو حاصل سیاسی سرپرستی جس کے سبب وہ کسی احتسابی عمل کو خارج ازامکان سمجھتے ہیں۔ سہ فریقی گورننگ باڈیوں میں مزدوروں و صنعت کار نمائندگان اگر چپ کا روزہ توڑتے ہوئے اپنی نمائندگی کا حق ادا کریں تو حالات میں کافی بہتری کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ایسا ہی مالیاتی کرپشن ہوتا رہے گا جیسا کہ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ صرف کاغذات پر 9 ارب روپے کی خطیر رقم سے مزدوروں کے لیے فلیٹ ہائوسنگ اسکیم تیار کررہا ہے ، جبکہ مذکورہ اسکیم پر زمین کے ملکیتی کاغذات ان کے نام پر نہیں ہیں لیکن کوئی آواز بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔پاکستان فوڈز ورکرز فیڈریشن اور کوکا کولابیوریجز کے رہنما سفیر مغل نے کہاکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر محنت کشوں کی کنٹری بیوشن سے فلاح وبہبود کے نام پر قائم اداروں نے ملک بھر میں مزدور طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ایک اندازے کے مطابق ملک بھر کے صنعتی اور ایگریکلچر سیکٹر سے وابستہ 6 کروڑ کے لگ بھگ محنت کش ہیں ان 6 کروڑ محنت کشوں میں صرف چند لاکھ محنت کش ہی EOBI، ورکرز ویلفیئر بورڈ اور سوشل سیکورٹی کے اداروں میں رجسٹرڈ ہیں جو رجسٹرڈ ہیں وہ بھی محکموں کی کرپشن لوٹ مار سے اپنے قانونی حق سے محروم ہیں جبکہ کروڑوں محنت کش فلاحی محکموں نے منظم سازش اور ملی بھگت سے اپنے اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے انہیں ان اداروں میں رجسٹریشن سے محروم رکھا ہوا ہے اور انکا کوئی والی وارث نہیں آئیں اس ظلم، ناانصافی فرسودہ نظام کے خلاف مل کر مشترکہ جہد وجہد کریں۔انصاف لیبر فیڈریشن مردان کے سابق صدر اور مزدور رہنما لطیف خان یوسفزئی نے کہا کہ خیبر پختون خواہ کے دوسرے بڑے شہر مردان میں محنت کشوں کے حالات زبوں حالی کا شکار ہیں محکمہ محنت کا ادارہ لیبر ڈپارٹمنٹ کارخانہ داروں کے آلہ کار کی حیثیت سے کردار ادا کرتا ہے‘حکومت کی طرف سے مقرر کردہ تنخواہ پر عمل درآمد نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ اب ہورہا ہے ۔مردان میں صرف ایک رحمن کاٹن مل ہے جب کہ زیادہ تر یہاں سگریٹ اور ماربل کے کار خانہ ہیں جس میں مزدوروں کی سیفٹی کے انتظامات اور لازمی تنخواہ کی ادائیگی کے قانون پر عمل درآمد کرانے والا کوئی نہیں ہر طرف اندھیر نگری ہے ‘دور جدید میں جہاں مہنگائی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے یہاں کا مزدور خواہ وہ کارخانہ میں کام کرنے والا ہو یا کسی دوکان یا ہوٹل میں کام کرنے والا مزدور ہو آج بھی 8 ہزار سے12 ہزار پر کام کرتا ہے ۔ مردان میں کوئی بھی قابل ذکر مزدور یونین یا مزدور لیڈر نہیں۔ مردان جیسے بڑے شہر میں چھوٹا سے لیبر ڈپارٹمنٹ کا آفس ہے جہاں صرف ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ایک لیبر انسپکٹر بڑے افسران سمجھے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ورکر ویلفیئر بورڈ اور EOBI سے استفادہ کا تو مزدوروں کو علم تک ہی نہیں۔