ایٹمی پروگرام خطرے میں

1023

پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کی غلامی میں چلا گیا ہے اور ڈر ہے کہ ا س بار آئی ایم ایف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سودا کرے گا۔ ایک کمزور پاکستان زندہ رہنے کے لیے اپنا سب کچھ بیچ دے گا اسی مقصد کے لیے حفیظ شیخ اور رضا باقر کو لایا گیا۔ امریکا افغانستان سے تو چلا گیا لیکن پاکستان میں آئی ایم ایف کے ناقابل علاج وائرس رضا باقر کی شکل میں چھوڑ گیا جس کا مقصد پاکستانی روپے کی قدر میں اس درجہ کمی کرنا ہے کہ ایک عام پاکستانی فاقہ کشی پر مجبور ہوجائے اور پاکستان کی پیداواری صلاحیت بالکل ختم ہوجائے۔ رضا باقر کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ پاکستان سے متوسط طبقے کا خاتمہ کردے گا۔ اس اقتصادی بدحالی کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سودا کرنا آسان ہوگا۔ پاکستان میں وہ قوت جو پاکستان کی سیاست کا فیصلہ کرتی ہے اور اپنے آپ کو بادشاہ گر سمجھتی ہے اگر پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوگیا تو ان کا کھیل بھی ختم ہوجائے گا۔ پھر وہ اپنی ہائوسنگ سوسائٹیاں کہاں بنائیں گے؟ جب ملک ہی نہ رہے گا تو یہ اللے تللے بھی نہیں رہیں گے کیونکہ بھارت اقتصادی طور پر بد حال پاکستان پر جنگ مسلط کرنے میں دیر نہیں لگائے گا اور پاکستان اپنی ایٹمی طاقت پہلے ہی کھو چکا ہوگا۔ میرا یہ خدشہ وہم نہیں ہے، بلکہ ماضی کے واقعات کی روشنی میں یہ منظر واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے مسلسل کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے اس کا نگران ڈاکٹر عبدالسلام کو بنایا گیا تھا جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھنے دیا تھا، اس کے بعد منیراحمد خان پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ بن کر اس پروگرام کی راہ کا کانٹا بنے رہے، جس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو نے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو بلایا اور ان سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب جہاں سے بھی اور جس طرح بھی آپ کو ایٹمی ٹیکنالوجی ملے حاصل کریں اور جو وسائل آپ کو چاہییں ہم آپ کو دیں گے متعلقہ ادارے آپ کی مدد کو تیار ہیں براہ راست مجھ سے رابطہ رکھیے اللہ آپ کو کامیاب کرے‘‘ (اقتدار کی مجبوریاں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ صفحہ 241)
پاکستان نے 10 سال کے اندر اندر وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی تھی۔ بھٹو کو راہ سے ہٹا دیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ یہ پروگرام ختم ہوجائے گا کیونکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی تھی۔ 1976 میں فرانس کے ساتھ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا سودا ٹوٹ گیا تھا، بھٹو صاحب فرانس کی اس وعدہ خلافی پر بہت برہم تھے۔ وہ جانتے تھے کہ فرانس کی اس وعدہ خلافی کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے۔ امریکا ذوالفقار علی بھٹو پر دبائو ڈالتا رہا کہ وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کردیں مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے یہ دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکا نے 1976ء میں اپنے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو پاکستان کے دورے پر بھیجا تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو سخت پیغام دے سکیں۔ ہنری کسنجر نے گورنر ہائوس لاہور کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے ایٹمی پروگرام کا منصوبہ ختم نہ کیا تو ان کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنا دیا جائے گا۔ شاید امریکا نے اس مقصد کے لیے اصغر خان اور احمد رضا قصوری کو استعمال کیا کیونکہ اپوزیشن بھٹو صاحب کی پھانسی کے حق میں نہیں تھی لیکن اصغر خان بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا بار بار اعلان کرتے رہے اور فوج کو قومی اتحاد کی اجازت کے بغیر مداخلت کرنے لیے خط لکھا تاکہ ہنری کسنجر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور ایسا ہی ہوا۔
پاکستان پر ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکا نے کئی اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں۔ تاکہ پاکستان مالی مشکلات کی وجہ سے دبائو میں آکر ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہوجائے۔ پاکستان میں ایک طبقہ اس بات پر اعتراض کرتا ہے کہ ایک غریب ملک کے وسائل مہنگے ایٹمی پروگرام پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے جواب میں جنرل مرزا اسلم بیگ کہتے ہیں کہ ہم نے ایٹم بم کی ٹیکنالوجی 300 ملین ڈالر سے بھی کم رقم خرچ کرکے حاصل کی ہے۔ اس کے بعد سے امریکا کا مسلسل پاکستان سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس پروگرام کو رول بیک کردو بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ان پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا منصوبہ لے کر آئی ہیں ان کے بارے میں جنرل مرزا اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی ایٹمی قوت میں منطق اور ٹھیرائو کا عنصر شامل کیا۔ 1990 میں امریکا بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سازش کا جواب مضبوط اقدامات کرکے دیا کہ ہمارے پاس صلاحیت بھی ہے اور اسے استعمال کرنے کا حوصلہ بھی۔ جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والی 5 اہم شخصیات میں سے 3 کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں دو کو غیر موثر کردیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، جنرل ضیاء الحق کا طیارہ تباہ کیا گیا، بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کے ذریعے قتل کردیا گیا۔ ایٹمی دھماکا کرنے والے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرکے سیاست سے نااہل کیا گیا اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پرویز مشرف کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا اور تمام عمر وہ نظر بند رہے ان کی شخصی آزادی چھین لی گئی۔ اب افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد مغربی میڈیا اور ان کا ہمنوا بھارتی اور اسرائیلی میڈیا اس پروپیگنڈے میں مصروف ہوگیا ہے کہ پاکستان طالبان کے ایٹمی پروگرام میں مدد دینے کے لیے پہنچ گیا ہے۔ بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اسرائیلی تجزیہ کار فیبیان بوسرات نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان ایٹمی تعاون کی بات چیت چل رہی ہے۔ یہ خبر بھارتی نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج میں جو اسلامی انتہا پسند ہیں وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی نیوکلیر ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔ یہ سب باتیں اس لیے کی جارہی ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نظر بندی کی حالت میں انتقال ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان اگر فطری موت نہ مرتے تو اس حکومت میں یہ بھی بعید نہیں تھا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان پر کوئی حملہ ہوجاتا اور وہ قتل کردیے جاتے۔ کیونکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر اسرائیلی اخبار ہارتیز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی جاسوس صحافی یوسی میلمن نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان موساد کے ہاتھوں سے بچ نکلے اور قدرتی موت مرے۔ ان پر ایٹمی مواد کی چوری اور ایٹمی پھیلائو کے الزامات ایک بار پھر لگائے گئے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی چوری نہیں کی بلکہ اپنے ملک کو طاقت ور بنانے کے لیے وہ کام کیا جس سے دنیا حیران رہ گئی اور دشمن کے منہ سے غصے سے جھاگ نکلنے لگا۔
(جاری ہے)
اسرائیلی جاسوس صحافی یوسی میلمن لکھتا ہے موساد کے سابق چیف شابتائی شاوت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کرنے کے لیے ایک ٹیم پاکستان بھیجی تھی۔ کیونکہ انہوں نے لیبیا اور ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کی تھی۔ موساد نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تواتر سے مشرق وسطیٰ کا درہ کرتے ہیں لیکن موساد ان کے ایٹمی پھیلائو کے نیٹ ورک کا سراغ نہیں لگا سکا۔ (اگر اس نیٹ ورک کا وجود ہوتا تو ملتا اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا)۔ تقریباً 15 سال پہلے یہ انکشاف موساد کے سربراہ نے اسرائیلی صحافی سے کیا تھا کہ نہ صرف موساد بلکہ امن (اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس) بھی ڈاکٹر خان کی سرگرمیوں کا سراغ نہیں لگا سکی وہ یہ نہیں جان سکے کہ ڈاکٹر خان مشرق وسطیٰ میں کس لیے دورے کررہے ہیں۔ لیکن محض شبہے کی بنیاد پر کہ انہوں نے ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کی موساد کی ٹیم انہیں قتل کرنے کے لیے روانہ کردی گئی۔ کیونکہ موساد یہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ صرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے باواآدم ہیں بلکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بھی ’’گاڈ فادر‘‘ ہیں۔ مزید کہا گیا پاکستان کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ریٹائرڈ ہوکر غیر معمولی طور پر نجی کاروبار شروع کردیا۔ جبکہ موساد کو کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے سینٹری فیوج پی ون اور پی ٹوکے ڈیزائن ایرانی سائنس دانوں کو بیچ دیے۔ ایرانی سائنس دانوں کی اس ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر محسن فاخر زادے کررہے تھے جن کو حال ہی میں موساد کے ایجنٹوں نے قتل کیا ہے انہوں نے ایران کے اپنے سینٹری فیوج آئی آر ون اور آئی آر ٹو بنائے ہیں۔ اس کے بعد وہ لیبیا کا ذکر کرتا ہے اور پرویز مشرف کی اس غلیظ اور ناپاک حرکت کا حوالہ دیتا ہے جس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو متنازع بنایا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے 1998 میں جب کامیاب ایٹمی دھماکے کیے تو دنیا بھر میں پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی تھی، دھماکے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اور بر وقت جواب تھے۔ ان دھماکوں پر بھارت پر پاکستان کا ایک رعب قائم ہوگیا تھا، بھارت نے بھی تسلیم کرلیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اسی کو تسلیم کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور میں مینار پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ امریکا کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ خطے میں امن ہو۔ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر خفیہ طور پر جنگ چھیڑ دی اور کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ اس کی گواہی خود آئی ایس پی آر کے سابق ڈائرکٹر کرنل (ر) اشفاق حسین نے اپنی کتاب ’’وٹ نیس ٹو بلنڈر‘‘ میں دی ہے جسے اردو میں انہوں نے ’’جنٹلمین استغفر اللہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’کارگل آپریشن ہر لحاظ سے ایک ناکام آپریشن تھا۔ جس کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ یہ 120 کلو میٹر سے بھی بڑے محاذ پر پھیلا ہوا تھا، وزیر اعظم اورکابینہ کی دفاعی کمیٹی کے علم میں لائے بغیر شروع کیا گیا تھا۔ بھارت نے نہ صرف محاذ جنگ پر اس کا بھر پور جواب دیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی وہ زبر دست مہم چلائی کہ اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کے ماتحت کام کرنے والے ’’4 کے ٹولے‘‘ کو اس کا جواب دینا مشکل ہوگیا۔ اس آپریشن کے منصوبہ سازوں کا یہ مفروضہ کہ سویلین محب وطن نہیں ہوتے اور یہ کہ وہ اس آپریشن کی خبریں افشا کردیں گے، درحقیقت انتہائی غلط تھا۔ جنرل مشرف کا یہ موقف کہ ہر شخص باخبر تھا، حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم (نواز شریف) کبھی اس کارروائی میں فریق نہیں بن سکتے تھے جو ان مثبت نتائج پر پانی پھیر دے جو انہوں نے بھارت سے امن مذاکرات کے ذریعے حاصل کیے تھے۔
یہ بات ابھی تک پردہ راز میں ہے کہ کارگل آپریشن کس کے اشارے پر کیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت سیاسی منظر یہ تھا کہ پاکستان ایک بار پھر فخر سے کھڑا تھا۔ عالم اسلام ان ایٹمی دھماکوں کو اپنی کامیابی سمجھ رہا تھا۔ بھارت پاکستان سے برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ لیکن وہ کون سی قوت تھی جسے خطے میں طاقت کا توازن قبول نہیں تھا، ظاہر ہے کہ وہ امریکا ہی ہے جسے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے سامنے اٹھ کھڑی ہونے والی ہر قوت کو کچل دینا چاہتا ہے۔ افغانستان سے وہ طالبان مجاہدین کی 20 سال کی مزاحمت کے نتیجے میں فرار ہونے پر مجبور تو ہوگیا ہے لیکن خطے میں اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ پرویز مشرف نے امریکا کے اسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے اقتدار پر قبضہ کیا اور امریکا کے نائن الیون کے ڈرامے کے بعد ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کا سوانگ رچایا، کیونکہ یہ شک ہے کہ طے شدہ اسکرپٹ کے تحت یہ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جو الزامات لگائے گئے اور ان سے جبری اعتراف کروایا گیا وہ سب اسی کھیل کا حصہ تھا جس کا خاکہ امریکا نے لکھا تھا۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی اور سینٹری فیوج کو منتقل کرنے کا عمل کسی بھی حکومت کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا تھا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگران پاک فوج رہی ہے لہٰذا اس کی ساکھ پر حرف آتا تھا اس لیے پرویز مشرف کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے سے روکا گیا نجانے کس قیمت پر اس نے یہ سودا کیا تھا۔ کاش پرویز مشرف ایک کتاب اور لکھے جس میں اس بات کا اعتراف کرے کہ اس نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام سبوتاژ کرنے کے لیے کتنی رقم وصول کی۔ اسرائیل کو یہ خوف تھا کہ 1990 میں پاکستان نے اپنا بیلسٹک میزائیل حتف 5 / غوری 1 تیار کرلیا تھا جس کی مارایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ تل ابیب تک تھی۔