یہ کیسی سیاست ہے؟

533

۔17 نومبر ہماری قومی سیاسی زندگی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اس سے پیوستہ ایام میں قومی اخبارات میں جو کچھ پڑھا اور ٹی، وی کے خبر ناموں اور مباحثوں میں جو کچھ سنا ایسا لگا کہ ملک میں شاید تبدیلی کی ہوائیں چلنے والی ہیں اور قوم پر پڑی افتاد بھی شاید ٹل جائے۔ ایک جانب اپوزیشن کی طرف سے شورو غوغا تھا کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اگر یہ حکومت قائم رہی تو ملک کے معاشی حالات سنگین سے سنگین تر ہو جائیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کی چھٹی کردی جائے، اس کے ساتھ ہی حکمران اتحاد کے حمایتیوں نے بھی اس بات کا کھلے بندوں اظہار کیا کہ حکومت عوامی مسائل اور غربت اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے ہمیں بھی حکومت سے کچھ تحفظات ہیں اور اب ہم حکومت کہ ساتھ مزید چلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورتحال میں عوام نے یہ سمجھ لیا کہ شاید سیاست دانوں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے اور وہ بھی عوامی مسائل اور مشکلات سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ مسائل حل نہ کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن یہ عوام کی خام خیالی ثابت ہوئی کیوں کہ حکومت نے عوام کے مسائل پر توجہ دی ہو یا نہ دی ہو لیکن اقتدار کی نیا ڈوبتے دیکھ کر خواہش اقتدار میں تحفظات رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے پھرتی کے ساتھ تحفظات دور کر دیے اور تا دیر اپنے اقتدار کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہاں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ آخر حکومت کے اتحادیوں کے ایسے کیا تحفظات تھے؟ جو یوں پلک جھپکتے میں دور کر دیے گئے اور ان کا عوام کی زندگی پر کیا اثر مرتب ہوا اور مستقبل میں اس کے کیا ثمرات مل سکتے ہیں؟ حالانکہ نہ تو مہنگائی میں کوئی کمی ہوئی اور نہ بے روزگاری میں کمی کا کوئی رحجان دیکھنے میں آیا۔
یہ جمہوریت کا کیسا حسن ہے کہ اس کی وجہ سے عوام کا چین و سکون بھی چھن جاتا ہے اور ان کے مسائل بھی حل نہیں ہوتے، یہ کیسے سیاستدان ہیں جن کا عوامی بھلائی کے بارے میں کوئی مستحکم موقف ہی نہیں ان کی باتیں سنی اور پڑھی جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک اور قوم کا ان سے زیادہ ہمدرد کوئی ہے ہی نہیں۔ شاید ہمارے سیاستدانوں پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ تمام ہی سیاستدان اور ان کے ساتھی ایک شاندار اور مثالی زندگی گزار رہے ہیں اور جنہوں نے انہیں ایوان اقتدار تک پہنچایا ان کی حالت اتنی پتلی ہے کہ ان گنت لوگوں کو روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں لیکن خدا سلامت رکھے ہمارے سیاستدانوں کو یہ کبھی زبانی کلامی دعووں سے آگے بڑھتے ہی نہیں۔ عوام کو امید تھی کہ شاید پی ٹی آئی عوام کے مسائل پر توجہ دے کر کمزور طبقات کو ایک شاندار مستقبل دینے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گی لیکن جمہوریت کا پڑھایا ہوا سبق شاید عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی ازبر کر لیا ہے کہ جمہور کو جتنا اپنے مقصد براری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کر لیا جائے اور اقتدار کے سہانے دنوں سے جتنا لطف اٹھایا جا سکتا ہے اٹھا لیا جائے، اب اس اقتدار کو طوالت کیسے دی جائے اس کے لیے وہ تمام طریقے آزمائے جائیں کہ جس سے اقتدار کی ڈولتی نیا کو بھی سنبھالا جا سکے، افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے کسی بھی سیاست دان نے اقتدار کو عوامی بھلائی اور بہتری کا مرکز نہیں بنایا جو بھی آیا اس نے اختیارات حاصل کرنے اور ان اختیارات کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال کرنے ہی کو اولیت دی اور ہمیشہ یہ سمجھا کہ اس نے الیکشن نہیں جیتا بلکہ شاید اس نے ملک کو فتح کر لیا ہے اور وہ ملک میں اپنی مرضی اور منشاء کا ایک ایسا نظام چاہتا ہے کہ اس کی حکومت بھی برقرار رہے اور آنے والے وقت کے لیے بھی حکمران رہنے کی راہ ہموار کر لے اور اسی لیے آرڈی ننسوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور کہیں سودے بازی کے ذریعے ملک کے آئین کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں الیکشن اصلاحات کے نام پر مستقبل کے اقتدار کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن اس سب میں عوام کہاں ہیں؟ ان کے مسائل کہاں؟ کسی کو بھی اس کی پروا نہیں۔
کس کس طرح عوامی امنگوں کا خون کیا جاتا ہے کس کس طرح عوام کا استحصال کیا جاتا ہے بڑا واضح دکھائی دیتا ہے لیکن شاید مسند اقتدار ہے ہی ایسی مسند کہ اس پر بیٹھا ہوا ہر فرد ملک اور قوم کے حال اور حالات و عوام کے مستقبل سے بے فکر اپنے مصاحبین کے مسائل اور معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اسے نہ مہنگائی کی پروا ہوتی ہے اور نہ اس کے اثرات کی نہ ملکی معیشت کا کوئی خیال ہوتا ہے اور نہ کمزور معیشت کے عوام پر پڑنے والے اثرات کی کوئی پروا، اپنی کرسی بچانے کی فکر کرنے والوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ ہر ماہ دوبار پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ملک کے کمزور طبقات پر کیا قیامت بیت جاتی ہے، ہمارے آج کے حکمرانوں نے، جتنی فکر قانون سازی اور اپنی مرضی کے آرڈی ننس لانے پر کی ہے اگر اس کا ایک فی صد بھی عوامی بھلائی اور اس کی بہتری پر مرکوز کی جاتی تو عوام کے تمام مسائل کا سدباب کیا جا سکتا تھا۔ جب آج کے حکمران کرسی اقتدار سے دور تھے تو ان کی تمام تر گفتگو ہی یہ تھی کہ حکمران عوامی مسائل پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ لیکن آج جب یہ کرسی اقتدار پر براجمان ہیں تو انہیں نہ مہنگائی نظر آتی ہے اور نہ بے روزگاری بلکہ یہ ان اہم ترین مسائل کو کورونا کی وجہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر طرف مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور ہمارا ملک بھی اس سے متاثر ہے لیکن یہ شاید بھول جاتے ہیں کہ عوام نے انہیں اس لیے ووٹ نہیں دیے تھے کہ یہ دلیلیں پیش کریں اور مہنگائی کی وجوہات پیش کرتے رہیں اور اقتدار سے بھی چمٹے رہیں بلکہ عوام نے ملک کا اقتدار انہیں اس لیے عطا کیا تھا کہ عوامی مسائل کا حل پیش کریں اور خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ملک اور قوم کو بچانے کا انتظام کریں آج صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی بد انتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ملک میں ہر شے کی قلت کا سامنا ہے اور شاید اسی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں بھی توازن نہیں عوام پہلے ہی بجلی کے ستائے ہوئے تھے کہ اب گیس کی قلت کے سبب ہر طبقہ زندگی بری طرح متاثر ہے۔
پے در پے مشکلات اور پریشانی میں عوام کو دھکیلنے کے باوجود بھی موجودہ حکمران اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، ملک جن حالات کا شکار ہے حکومت میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ عوام کو ان مشکل ترین حالات سے نکال سکے اور یہ صلاحیت بھلا کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔
جب حکمران اقتدار بچانے کی کوشش میں لگے رہیں تو ان کی نظام پر گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے اور ان کا سارا زور جوڑ توڑ کی سیاست تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور اس قسم کی سرگرمیوں سے ملک اور قوم کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
جمہوریت یہ نہیں کہ جوڑ توڑ کی سیاست کو فروغ دیا جائے حقیقی جمہوریت یہ ہے کہ حکمران جب عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائیں تو پھر کسی دوسرے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ملک اور قوم کو کامیابی کے ساتھ ہمکنار کر سکے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ راتوں رات سیاست دانوں کی رائے تبدیل ہو جائے، کبھی تحفظات جنم لے لیں اور کبھی جادو اور چمک کے زور پر تحفظات سرے سے ہی ختم ہو جائیں، فکر والی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے بڑے بڑے علمبردار اور دعوے دار خاموش تماشائی بن کر جمہوریت کے ساتھ ہونے والا یہ سنگین مذاق بھی دیکھیں اور اف تک نہ کریں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس قسم کے سیاست دانوں کو اب اچھی طرح پہچان چکی ہے کہ جمہوریت پسند اور آئین و قانون کی بالادستی تسلیم کرنے والے کون لوگ ہیں اور جمہوریت اور آئین وقانون کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال کرنے والے کون لوگ ہیں موجودہ سیاسی فکر و فلسفے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کا ہر فرد تعلیم کے حصول پر بھرپور توجہ دے جب ہی ہر فرد میدان سیاست کی چالبازیاں جان اور سمجھ سکتا ہے کسی نے موقع پرستوں کے حوالے کیا خوب کہا ہے دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکا کھلا کھلا۔