آدھا سچ

399

 

پاکستانی سیاستدانوں کا یہ طرّہ امتیاز ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے مگر یہ کہ وہ سچ بھی نہیں بولا کرتے، سیاست کے ایوانوں سے ملک کی تباہی کی مختلف توجیحات پیش کی جاتی ہیں، کبھی بدعنوانی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے، کبھی لوڈ شیڈنگ، کبھی دہشت گردی، کبھی بد انتظامی تو کبھی مہنگائی کو عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ ہے اُس کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آدھا سچ ہے، ہماری مقننہ ہو، عدلیہ ہو، انتظامیہ ہو یا ریاست کا چوتھا ستون ذرائع ابلاغ کے ادارے ہوں سب ہی اپنے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آدھا سچ ہی بیان کرتے ہیں۔
سیاستدانوں کی جانب سے ایک دوسرے پر کرپشن، لوٹ مار، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے، اداروں کو تباہ کرنے اور ملک وقوم سے غداری کرنے جیسے سنگین الزامات کوئی انوکھی بات نہیں لیکن آئینی اداروں کے معزز سربراہان کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات ہمیں غور وفکر کی دعوت دے رہے ہیں، ہم معاشرے میں کس طرح کے رویوں کو جنم دے رہے ہیں جو دنیا بھر میں ہماری بدنامی کا سامان بن رہے ہیں، یہ کس طرح کا نظام انصاف ہے کہ جس میں کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے شخص، ادارے یا جماعت کے خلاف جو چاہے کہہ دیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کیا پاکستان میں کسی بھی سطح پر ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو اس طرح کی مادر پدر اظہار رائے کی آزادی کے لیے کوئی حد قائم کرسکے۔ یقینا دونوں فریقین میں سے کوئی ایک قصور وار ہوگا، کوئی نہ کوئی دروغ گوئی کا مرتکب ٹھیرے گا، لیکن یہ سب اُس وقت ہی واضح ہوسکے گا جب اِس معاملے کی شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائیں اور قصور وار کو سزا کا حقدار ٹھیرایا جائے وگرنہ آئندہ بھی اسی طرح کے واقعات رونماء ہوتے رہیں گے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کا منصب اِس امر کا متقاضی ہے کہ ریاست کے بہتر مفاد میں اقدامات اٹھائے جائیں نہ کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت کا اظہار کیا جاتا رہے، ریاست کے سب سے اہم منصب پر فائز شخصیت کی جانب سے سیاسی رہنمائوں، آئینی اداروں اور عوام کے بارے میں انتہائی مضحکہ خیز، تعجب انگیز، مفروضوں، قیاس آرائیوں پر مشتمل غیر حقیقی بیانات پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کر رہے ہیں، اِس وقت جب پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی بیش تر شرائط پر عملدرآمد کا دعویٰ کررہا ہے وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات ہمارے دعوے کی نفی کررہے ہیں۔ ایسے غیر حقیقی بیانات کی موجودگی میں ہمیں دشمن ممالک کی سازشوں کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنوں کے غیر حقیقی بیانات ہی ہمیں گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کرنے اور دنیا بھر میں تنہا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وزیرِ اعظم پاکستان اور وفاقی وزراء کی جانب سے پٹرول، گیس، بجلی، چینی اور دیگر اشیاء خور ونوش کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بابت وضاحتیں پیش کی جارہی ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کورونا کے بعد پوری دنیا میں مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے تاہم حقیقت حال اِس کے برعکس ہے پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے سے قبل پٹرول کی عالمی قیمتیں 80 سے 100 ڈالر فی بیرل (بیرل: 158.9لیٹر) پر مستحکم تھی لیکن کورونا کے دوران پٹرول کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر یعنی 23ڈالر فی بیرل تک گرگئیں تھیں لیکن پاکستانی عوام کو عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں گراوٹ کا فائدہ نہیں دیا گیا لیکن جیسی ہی بتدریج دنیا بھر میں معمولات زندگی بحال ہونے پر پٹرول کی عالمی قیمتیں واپس اپنی اصل کی جانب لوٹ رہی ہیں تو حکومتی ترجمانوں کی جانب سے عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
پاکستانی منڈیوں میں مہنگائی کے سونامی پر حکومتی ترجمانوں کا کہنا یہ ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے اور پوری دنیا مہنگائی کی لپیٹ میں ہے جس کا اثر پاکستانی مارکیٹ پر بھی پڑرہا ہے، حالانکہ بین الاقوامی جریدے اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے، اگر دیگر ممالک سے مہنگائی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو مقامی نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں مہنگائی کی شرح 5.4جرمنی میں 4.5چین میں 0.7جبکہ ترکی میں مہنگائی کی شرح پاکستان کی 14.5فی صد کے مقابلے میں 19فی صد ہے تاہم ترکی میں فی کس آمدنی پاکستان کی فی کس آمدن سے 605فی صد زائد ہے۔
تین سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود حکمران معیشت کی تباہی کا ذمے دار سابقہ حکمرانوں ہی کو گردان رہے ہیں، قو م سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر وزیرِ اعظم نے اپنی انتظامی ناکامیوں کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ملکی خزانے کو لوٹنے والے دو خاندان اگر وہ رقوم واپس کردیں تو اشیاء خور ونوش کی قیمتیں آدھی کردوںگا۔ اگر ماضی میں قومی خزانے کو کسی بھی انداز میں نقصان پہنچایا گیا ہے تو تمام تر ادارے حکومت کے ماتحت ہیں، اداروں کا تمام تر ریکارڈ دستیاب ہے پھر میڈیا ٹرائل پر ہی اکتفا کیوں کیا جارہا ہے، ریکارڈ میں موجود دستاویزات کی بنیاد پر عدالتوں میں ٹھوس شواہد پیش کیے جائیں اور واقعتا اگر کرپشن ہوئی ہے تو ملوث کرداروں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اور اگر صرف مفروضوں، قیاس آرائیوں اور غیر حقیقی الزامات کی بنیادوں پر ہی کسی کو بدعنوان قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر پی ٹی آئی کے متعدد رہنمائوں پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں اور پی ٹی آئی کے کئی ذمے داران بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی اسکینڈل میں ملوث ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ہر شہری پر قرض کی شرح 4355 روپے تھی، رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے سال 2008-09 میں 4ارب 11کروڑ 30لاکھ ڈالر، مالی سال 2009-10 کے دوران 3ارب 1کروڑ 90لاکھ جبکہ مالی سال 2010-11 میں قرض مزید کم 1ارب 83کروڑ ڈالرحاصل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال کے اختتام تک ہر شہری 5842 روپے کا مقروض ہوجائے گا۔ حالیہ دنوں اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اِس وقت یعنی 2021 میںہر شہری تقریباً پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ قوم کے سامنے تمام تر حقائق رکھیں جائیں، مشکل معاشی حالات سے بحیثیت قوم نبرد آزما ہوا جائے۔