اربوں روپے کا سوال

365

لاہور ہائی کورٹ میں کسی شخص نے ایک درخواست دی ہے جس میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنے کے جرم میں 256 افراد کا ڈیٹا بلاک کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ارسال کیا تھا مگر پی ٹی اے نے صرف 66افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں، حالانکہ توہین رسالت اور توہین مذہب ناقابل معافی جرم ہیں، راضی نامہ تحریر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی صلح صفائی سے اس جرم کے مرتکب کو معافی نامہ دیا جاسکتا ہے، یہ معاملہ تو توہین رسالت اور توہین مذہب کا ہے، قانونی طور پر راہ زنی کے مرتکب کو بھی راضی نامے کے ذریعے معافی نہیں دی جاسکتی اور اگر راہزنی کی ایف آئی آر درج کرادی جائے اور پرچہ درج کرانے والا صلح کر لے تو عدالت 6ماہ تک کی سزا سنا سکتی ہے، اس معاملے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایف آئی اے نے جرم ثابت ہونے کے بعد 256 افراد کے خلاف مقدمات پی ٹی اے کو ارسال کیے تھے لیکن مقدمات صرف 56افراد کے خلاف درج کیے گئے تھے، یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ 190افراد کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا، جو آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
پنجاب ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر توہین رسالت اور توہین مذہب کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمات درج نہ کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی، وزارت داخلہ ایف آئی اے اور پی ٹی اے سے 26نومبر تک جواب طلب کر لیا ہے، سماعت کے دوران عدالت نے وزارت داخلہ ایف آئی اے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کو فریق بنایا ہے، اور فریقین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں، سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ توہین رسالت اور توہین مذہب کے کسی بھی مرتکب کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ توہین رسالت اور توہین مذہب کا ارتکاب دیدہ دانستہ کیا جاتا ہے اسے اسلامو فوبیا بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مکروہ عمل اسلام سے بیزاری کا مظہر ہوتا ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ عمل ناقابل برداشت ہے ایسے افراد کو کڑی سے کڑی سزا دینا عدالت کی ذمے داری ہی نہیں ایمان کا تقاضا بھی ہے۔
چودھری فواد اکثر ایسے بیانات دیتے ہیں جو متنازع ہی نہیں جھوٹ کا پلندا لگتے ہیں، کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، مگر جھوٹ اتنا خودار ہوتا ہے کہ سچ سامنے آجائے تو سرپر پائوں رکھ کر بھاگ جاتا ہے، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا سیاسی منشور اور نصب العین جھوٹ پر مبنی ہے، لیکن فواد چودھری کا تازہ ترین بیان ان کی اسلام پسندی اور خوداری کا ایک ایسا ثبوت ہے جسے کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا، موصوف نے اعتراف کیا ہے کہ ہمیں کسی سے خطرہ نہیں ہم خود بہت بڑا خطرہ ہیں، ’’واقعی‘‘ موصوف کا یہ اعتراف خوش کن اور خوش آئند ہے کہ دینی درس گاہیں انتہا پسندی کی ذمے دار نہیں اور ہمیں اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے کہ انتہا پسندی کی اصل وجہ اسکول اور کالج ہیں، جہاں سے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے، ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ انتہا پسندی اسکولوں اور کالجوں میں وجود میں آتی ہے، کیونکہ وہاں ایسے اساتذہ کو ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں جو انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں اس تعلیم کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مقامی انتظامیہ بھی تباہ ہو جاتی ہے، موصوف کے اس اعتراف نے عمران خان کی حکومت پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیںاور اہم ترین سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کیا چاہتے ہیں اور کیوں چاہتے ہیں، اس چاہت کا منبع کہاں ہے، خان صاحب اپنی حکومت کی ہر نااہلی کا ذمے دار سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو قرار دیتے ہیں مگر موصوف اپنے قول و قرار پر غور فرمانا غیر ضروری سمجھتے ہیں، حالانکہ اس حقیقت سے ہر شخص آگاہ ہے کہ اوّل خویش کا اطلاق سبھی پر ہوتا ہے اور یہ حقیت بھی ناقابل تردید ہے کہ آگاہی کا عذاب بڑا جان لیوا ہوتا ہے آدمی گھٹ گھٹ کر مر جاتا ہے، مگر خود آگاہی عذاب نہیں ہوتی خدا کی رحمت ہوتی ہے، یہ کیسا المیہ ہے کہ عقل و دانش کے زعم میں مبتلا لوگ رحمت کے بجائے رحمت بابا پر بھروسا کرتے ہیں، بھروسا کاٹھ کی ہنڈیا کی طرح ہوتا ہے، کاٹھ کی ہنڈیا دوبارہ چولھے پر نہیں چڑھائی جاسکتی اسی طرح بھروسا ٹوٹ جائے تو کوئی بھی کوزہ گر اسے چاک پر نہیں چڑھا سکتا اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ ملک میں ترقی کا پہیہ جام اور عوام لاوارث ہو چکے ہیں مہنگائی کے عفریت نے سانس لینا بھی دشوار کر دیا ہے، وطن عزیز کو عزیزانِ امریکا کے پاس رہن رکھ دیا گیا ہے، اور حکومت امریکا کے عزیز ہی چلا رہے ہیں، عمران خان تو برائے نام وزیر اعظم ہیں، حکومت کی باگ ڈور عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھ میں ہے، رہی سی کسر خان صاحب کو عطیہ دینے والوں نے پوری کر دی ہے، سچ ہی کہا ہے ایک اداکارہ نے کہ عمران خان بے بس وزیر اعظم ہیں، امیر جماعت اسلامی کے تجزیہ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز کو نظام حکومت کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے، کبھی جمہوریت کے نام پر مطلق العنانیت بنادیا گیا کبھی آمریت کے نام پر جمہوریت کا تڑکا تو کبھی مارشل لا کا ڈنڈا، طرز حکمرانی کوئی بھی رہا ہو ڈنڈ عوام ہی بھرتے رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی نظام کا بھی تجربہ کیا جائے۔
یہ کروڑوں کا نہیں اربوں کا سوال ہے کہ جماعت اسلامی کو حکمرانی کا موقع کیوں نہیں دیا جارہا ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ سوشل میڈیا بھی سدھر جائے گا کوئی بھی شخص توہین رسالت اور توہین مذہب اور دیگر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔