تقریر نہیں عمل

422

وزیر اعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں سنگا پور اور ہانگ کانگ کی معیشت پاکستان کے ہم پلہ تھی جو اب ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں اسی طرح بہت سے دیگر ترقی پذیر ممالک ملائشیا وغیرہ کی معیشت بھی ہم سے بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے جس کا بنیادی سبب درآمدات کے مقابلے میں ہماری برآمدات کا کم ہونا ہے، اس وجہ سے پاکستان میں ڈالرز کی جو کمی واقع ہوتی ہے اس سے روپے پر دبائو بڑھ جاتا ہے اور پاکستان کو اس معاشی تفاوت سے عہدہ براء ہونے کے لیے بیس بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے۔ وزیر اعظم نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ’’سوہنی دھرتی ترسیلات زر‘‘ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس صورت حال سے نجات کا واحد راستہ برآمدات میں اضافہ ہے مگر ماضی کے حکمرانوں کی پالیسی کے سبب بڑ ی برآمدای صنعتیں جمود کی شکار تھیں، ہم نے ’کرونا‘ کے باوجود ان صنعتوں کو ترقی دینے اور پھلنے پھولنے کے مواقع دینے کے لیے متعدد اقدامات کئے ہیں جن کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں مگر ابھی تک برآمدات اور درآمدات میں ایک بڑا فرق موجود ہے، اس فرق اور خلا کو پر کرنے کے لیے بیرون ملک پاکستانیوں کا کردار نہایت اہم ہے جن کی بنکوں کے ذریعے ترسیلات زر سے اس فرق کو کم سے کم کرنے میں بہت مدد ملی ہے اسی لیے حکومت کی کوشش ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجنے والے بیرون ملک شہریوں کو اپنے وطن میں سرمایا کاری، کاروبار اور جائیدادوں وغیرہ کی خریداری میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ ان کے سرمایہ کو تحفظ حاصل ہو سکے، یہ بیرون ملک پاکستانی قوم کا اثاثہ ہیں جو پاکستان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ہم بھی ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے منصوبے بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خاں کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بیرون ملک پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں جو ملک کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہیں، وزیر اعظم پہلے بھی بارہا بیرون ملک پاکستانیوں کی وطن کے لیے خدمات کا اعتراف کر چکے ہیں اور انہی خدمات کا صلہ دینے کی خاطر ان کی حکومت نے گزشتہ دنوں مجلس شوریٰ کے ایوان بالا و زیریں کے مشترکہ اجلاس میں ان کو حق رائے دہی دینے کا قانون بھی منظور کروایا ہے جس پر حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی کہ عمران خان نے اس قانون کو منظور کروا کے آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے ورغلانے کی کوشش کی ہے، یہ تنقید اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی سمندر پار تارکین وطن دنیا کی بیرون ملک تارکین وطن کی سب سے بڑی آبادیوں میں سے ایک ہیں، ان کا ملکی معیشت میں کردار، خصوصاً زر مبادلہ کی فراہمی میں حصہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، کم و بیش نوے لاکھ نفوس پر مشتمل ان پاکستانی تارکین وطن نے گزشتہ مالی سال کے دوران ساڑھے انتیس ارب ڈالر کا خطیر زر مبادلہ قومی خزانے کو فراہم کیا جس سے ملک کے غیر ملکی کرنسی کے محفوظ ذخائر میں اضافہ میں خاطر خواہ مدد ملی تاہم اس کے باوجود تصویر کا دوسرا رخ کچھ زیادہ روشن اور حوصلہ افزا نہیں ان بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنے وطن میں بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اندرون ملک ان کی سرمایہ کاری محفوظ نہیں، ان کی خریدی ہوئی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضوں کی شکایات عام ہیں، اس کے علاوہ انہیں مختلف مافیاز، خاندانی تنازعات اور فوجداری مقدمات وغیرہ جیسے مسائل سے بھی اکثر واسطہ پڑتا ہے، وزیر اعظم عمران خاں اپنی تقریروں میں اکثر ان کے مسائل کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور ان کے حل کے لیے مختلف اعلانات اور دعوے بھی ان کی جانب سے کئے گئے ہیں مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ تاحال بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل و مشکلات میں قابل ذکر کمی نہیں آ سکی …!!!
وزیر اعطم عمران خاں کی جانب سے ملکی معیشت کی جس زبوں حالی کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تاہم اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے جو اقدامات اور اصلاحات وہ تجویز کرتے ہیں خاص طور پر جس آئی ایم ایف سے قرض لینے کو وہ اقتدار میں آنے سے قبل ایک لعنت قرار دیتے رہے ہیں، اسی آئی ایم ایف سے ایک ارب پانچ کروڑ نوے لاکھ ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے جناب عمران خاں کی حکومت نے جن کڑی اور شرمناک شرائط پر معاہدہ کیا ہے وہ تو کھلا ملک کی آزادی و خود مختاری کا سودا کرنے کے مترادف ہے، مگر وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ان شرائط کو تسلیم کرنے پر شرمندہ ہونے کی بجائے اظہار تفاخر کر رہے ہیں مگر وزیر اعظم کو احساس ہونا چاہئے آئی ایم ایف کی اس طرح کی شرائط پر عمل درآمدکے نتیجے میں آج کل کسی ملک کی معیشت بہتر ہوئی ہے نہ اسے قرض کی لعنت سے چھٹکارا حاصل ہوا ہے خصوصاً جب عمران خاں پاکستان کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر تعمیر کرنے کے عزائم کا بار بار اعلان کرتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ‘‘ ریاست مدینہ کے معمار محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ؐ نے اپنی ریاست کی خشت اول رکھنے سے قبل کفر کے تمام طریقوں کو اپنے پائوں تلے روندنا ضروری قرار دیا تھا مگر ہم کفر کے اصولوں کو اختیار کر کے اور اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتارے بغیر پاکستان کو ’ریاست مدینہ‘ کا روپ دینے پر بضد ہیں، جس میں سود پوری معیشت کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہو، حالانکہ خالق کائنات نے خود اس سود کو اللہ اور رسول ؐ سے جنگ قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو دو ٹوک الفاظ میں حکم دیا ہے کہ ’’یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو ، امید ہے کہ فلاح پائو گے۔ اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘ ہمارے ذرائع ابلاغ پر فحاشی اور عریانی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، ہمارے معاشرہ میں جھوٹ اور فریب کا راج ہے، ملاوٹ، رشوت، سفارش، کم تولنا، جوا، شراب، فرقہ بندی، لسانیت، علاقائیت، اقربا پروری، دھوکہ دہی، حرام خوری حتیٰ کہ فعل قوم لوط جیسی بڑی بڑی برائیوں میں سے وہ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی حالانکہ ان میں سے صرف ایک کی موجودگی پر سابق انبیاء کی قوموں کو تباہ و بارباد کر دیا ہے، ہم میں وہ سب کی سب مجموعی طور پر موجود ہیں۔ جناب عمران خاں آج جس اہم ترین منصب پر موجود ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام خرابیوں کی بیخ کنی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں۔ وزیر اعظم کے با اختیار منصب پر بیٹھ کر وہ ان خرابیوں کا محض تذکرہ کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ان کی ذمہ داریوں کے تقاضے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں، قرآن حکیم میں خالق کائنات نے انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں‘‘اس لیے جناب وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ وہ ’ریاست مدینہ‘ کی باتیں کم کریں اور ٹھوس عملی اقدامات زیادہ، کہ یہی آپ کے منصب کا اہم ترین تقاضا ہے…!!!