افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

308

 

تحریک اسلامی
ہمیں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ اس جماعت کے بغیر یہاں تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔ ہم جو کچھ سمجھتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس مملکت کو عملاً اسلامی مملکت بنانے کے لیے ایک ایسی تحریک اور جماعت کا موجود ہونا ضروری ہے جو پہلے سے منظم اور طاقتور ہوچکی ہو اور الحمدللہ کہ اس ضرورت کو جماعتِ اسلامی نے بڑی حد تک پورا کردیا ہے۔ اگر یہ جماعت پہلے سے منظم نہ ہوچکی ہوتی تو اس امر کی توقع بہت کم تھی کہ فسق و ضلالت کی طاقتیں یہاں نئے سرے سے کسی ایسی تحریک کو اٹھنے اور کسی ایسی جماعت کو منظم ہونے کا موقع دیتیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہو۔
(ترجمان القرآن، جون 1951ء)
جماعت اسلامی اور قیام پاکستان
پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں جماعت کی عدم شرکت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جماعت تقسیم کی مخالف تھی یا متحدہ ہندوستان کی حامی تھی، ایک بہت ہی غلط استنتاج ہے۔ اگر آپ میری اس زمانے کی تحریریں تفصیل کے ساتھ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ میں اس رہنمائی اور اس طریق کار سے غیر مطمئن تھا جو مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک طرف مسلم نیشنلسٹ گروہ اور دوسری طرف نیشنلسٹ مسلم گروہ پیش کر رہا تھا۔ دونوں کے متعلق میرے اس وقت کے جو اندازے تھے بعد میں وہ لفظ بلفظ پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ اسی عدم اطمینان کی وجہ سے میں ان دونوں سے الگ رہا اور جو کچھ میرے نزدیک درست تھا اس کے لیے کام کرتا رہا۔ تقسیم ملک کی مخالفت اگر میں نے کسی روز کی ہو تو آپ اس کا حوالہ دیں۔ یا متحدہ قومیت یا متحدہ ہندوستان کی تائید میں کبھی میں نے کوئی بات کہی ہو تو اس کی نشاندہی بھی آپ فرما دیں۔ ایسی کسی چیز کی غیر موجودگی میں مجھ سے یا جماعت اسلامی سے یہ سوال کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اگر ہندوستان متحد رہتا تو کیا تم جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے۔
غیر اسلامی حکومت
اس کے علاوہ اس معاملے میں ایک پہلو اور بھی ہے جسے آپ نظرانداز کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ غیر اسلامی نظامِ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون یا اس میں کسی کی حصے داری کو جماعت اسلامی اصولاً غلط کہتی ہے۔ اسی وجہ سے تقسیم سے قبل کے انتخاب میں ہم نے سرے سے دلچسپی ہی نہیں لی۔ اگر خدانخواستہ ہندوستان متحد رہتا اور اس میں سیکولر نظام قائم ہوتا تو اس کے لادینی نظامِ حکومت کے انتخابات میں حصہ لینے کے سرے سے ہم قائل ہی نہ ہوتے، پھر جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا سوال اس نظام میں ہمارے لیے کیسے پیدا ہوتا؟ جماعت اسلامی اس طرح کے لادینی نظام میں کام کرنے کا جو نقشہ اپنے سامنے رکھتی تھی اسے جماعت کے لٹریچر میں وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا گیا تھا۔ آپ ہمارے اس طریق کار کو غلط سمجھنے اور کہنے کا حق رکھتے ہیں، مگر ہمارے حقیقی منشا کے خلاف ہماری باتوں کو یہ معنی پہنانا کہ ہم متحدہ ہندوستان کے طالب اور تقسیم ملک کے مخالف تھے، ایک ایسی زیادتی ہے جس کی ہم کم ازکم آپ جیسے معقول آدمیوں سے توقع نہیں رکھتے۔
(ترجمان القرآن، نومبر 1956ء)