خوشگوار خانگی زندگی

342

 

اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ’’وہ تمھارے لیے لباس کی مانند ہیں اور تم ان کے لیے لباس کی مانند ہو‘‘۔ (البقرہ: 187)
اللہ رب العزت نے اس تعلق کو ایک انتہائی بلیغ تشبیہ دے کر بات کو سمجھایا ہے کہ میاں بیوی فقط رسمی تعلق کا نام نہیں بلکہ لباس سے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے۔ لباس انسانی بدن کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے، مثلاً ستر، عزت، تحفظ، زینت، صحت، تہذیب وغیرہ۔ جس طرح لباس ہماری سترپوشی کا ذریعہ ہے، یہ رشتہ بھی ہمارے عیوب کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس کی زینت عزت بخشتی ہے، ایسے ہی یہ رشتہ عزت افزائی کا ذریعہ ہے۔ جس طرح لباس ہمیں سردی گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح لباس بھی ہمارے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے۔ ان کی عزت وذلت، احترام اور مقام و مرتبہ، ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ ان دونوں میں ہر ایک کے ذمّے ہے کہ وہ اپنے رشتے کو حادثات اور آفات سے بچا بچا کر رکھے۔
لباس سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لباس پر اگر راہ چلتے کوئی کیچڑ، گندگی یا داغ لگ جائے تو ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے پھینکنے، پھاڑنے یا اس حصے کو کاٹنے کی بجائے بہت خیال کے ساتھ فوری طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ میاں بیوی کے تعلق کا ہے کہ انسانی فطرت کے سبب اگر کوئی اَن بن، جھگڑا، اختلاف یا ناراضگی ہوجائے تو ان کو اپنے گھر کا خیال رکھتے ہوئے اس اختلاف کو فوری سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
درحقیقت یہ رشتہ ذمے داریوں کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی ایک کو مکمل قصور وار ٹھہرانا حماقت ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور انسان کا نام ہی نسیان سے ماخوذ ہے۔ جس کا مطلب اس کی فطرت میں بھلکڑ پن اور غلطیاں کرنا شامل ہے۔ لہٰذا جس طرح شوہر ایک انسان ہے اسی طرح بیوی بھی ایک انسان ہے اور انسان ہونے کے ناطے دونوں کو اپنی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ اور فقہ اسلامی کے ماہر فقہا نے دونوں کی ذمے داریوں کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
گھر کا ماحول: رسول اللہؐ کی ایک حدیث مبارک ہے: ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب میں سب سے زیادہ اچھا ہوں‘‘۔ (ترمذی، ابواب المناقب)
فرمایا کہ گھر میں تُندخو، سخت مزاج یا آمر بن کر نہ رہو بلکہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، اور کوئی اگر باہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن گھر میں برا ہے تو وہ برا ہے۔
گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھیے اور اس نیت سے رکھیے کہ یہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور مجھے اس حسن سلوک پر نیکیاں مل رہی ہیں۔
اہلِ خانہ کی تربیت: اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مرد حضرات اپنے گھر میں اچھا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس اچھے ماحول کی آبیاری کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، حالانکہ وہ اپنی کوشش سے ایک نہایت خوب صورت ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔
وہ اپنے گھر والوں سے کپڑے، کھانا، صفائی اور آرام کا مطالبہ کرتا ہے لیکن نماز کے متعلق نہیں پوچھتا۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے متعلق نہیں پوچھتا۔ شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے لیکن کسی نیکی کی مجلس میں نہیں لے جاتا۔ حالانکہ اگر سب گھر والے روزانہ صرف دس منٹ بھی ایک اجتماعی ماحول قائم کریں، کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو اس سے حیرت انگیز فوائد دیکھنے کو ملیں گے۔ ان شاء اللہ
ایک اہم معاملہ: ایک اہم مگر ضروری کام مرد کے ذمے یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھل کر بات کرسکے اور بیوی کو کھل کر بات کرنے کا حق دے۔ اس کے اظہار بیان پر کوئی بھی پابندی نہ ہو۔ یہاں تک کہ زوجین آپس میں اس معاہدے پر عمل کریں کہ ہمارے بیچ کوئی بھی مسئلہ ہوگا ہم دیگر افراد کو بیچ میں لائے بغیر بلاتردّد اس کو ایک دوسرے سے بیان کرکے حل کریں گے۔
عین ممکن ہے کہ مرد کو اپنی ماں، بہن کے متعلق بہت سی تلخ باتیں سننے کو ملیں۔ وہ یہ سب یہ سوچ کر سنے کہ اس کے ذمے خدمت، رضاعت، حمل، تربیت کی بہت سی ذمے داریاں ہیں اور یہ ان سب کے باوجود طعن و تشنیع کے تیر بھی کھاتی رہتی ہے، لہٰذا اس وقت میں اگر اس کے دکھ درد (اگر چہ نہ ہوں) کی نہ سنوں تو اور کون سنے گا۔
لیکن احتیاط لازم ہے کہ فقط سنے اور سنتا جائے، لیکن اس شنوائی پر کوئی بھی رد عمل کا اظہار نہ کرے ورنہ اپنی بیوی بچوں کی فکر میں وہ حدِّ اعتدال سے نکل کر والدین اور بہنوں، بھائیوں کے حقوق غصب کرے گا۔ ٹھیک اسی طرح اپنی والدہ محترمہ کے پاس جائے تو وہاں بھی اہلیہ کے متعلق فقط سننے پر اکتفاء کرے ، اگر رد عمل کا اظہار کرے گا تو اپنے گھر سمیت خود بھی ٹوٹ جائے گا۔
خواتین اور مردوں کے مزاج کا فرق
ایک اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اپنی بیوی کا مزاج سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے ایک مقام پر ’غافلات‘ کا صیغہ ذکر کیا ہے، جب کہ مردوں میں غفلت کا مطلب لاپروائی یا اپنی ذمے داریوں کو پورا نہ کرنے والے کو ’غافل‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن جن معنوں میں ’غافلات‘ عورتوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے اس کا معنی ہے بھولی بھالی یا ایسی عورت جو حد درجہ ہوشیاری نہ جانتی ہو بلکہ سیدھی سادی اور انتہائی مخلص مزاج ہو۔ جسے ہر بات کی فلسفیانہ وجوہات اور تہہ میں جاکر سمجھنا نہ آتا ہو۔ اندازہ لگائیں کہ اس عورت سے جب مرد بار بار یہ شکایات کرتا ہے کہ تم بات نہیں سمجھتی؟ تمھیں عقل نہیں ہے؟ تم ایک ہی بات بار بار کیوں کہتی ہو؟ تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو؟ یہ سارے وہ جملے ہیں جن میں مرد اپنی بیوی سے دانش مندی کی انتہا درجہ توقعات رکھتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس نہج پر نہیں بنایا۔ البتہ کچھ خواتین واقعی علم وعقل اور شعور و دانش کی اعلیٰ سطح پر قائم رہتی ہیں لیکن وہ ایک استثنائی صورتِ حال ہے۔
آپؐ اپنی ازواج مطہرات کے کس قدر مزاج شناس تھے اس حوالے سے آپؐ سیدہ عائشہؓ سے ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ ’’عائشہؓ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے۔ پوچھا: کیسے؟‘‘
آپؐ فرماتے ہیں: ’’جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو وربِّ محمد (محمدؐ کے رب کی قسم) اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: وربِّ ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم)‘‘۔
اور جواب میں اْم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ناراضگی کے عین موقع پر بھی میں فقط آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں باقی دل میں برابر آپؐ کی محبت برقرار رہتی ہے‘‘۔ (بخاری)
ان گزارشات پر بالخصوص شادی سے پہلے نوجوان جوڑوں کو ضرور غور وفکر کرلینا چاہیے۔