سیدنا حسن بصریؒ

300

نام مبارک حسن اور کنیت ابو سعید تھی، آپؒ کے والدکا نام یسار تھا، جو سیدنا زید بن ثابتؓ کے مولی تھے اور والدہ کا نام بی بی خیرہ تھا، جو سیدہ ام سلمہؓ کی باندھی تھی۔ آپ کے والد 12ھ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
ولادت
آپؒ کی ولادت سیدنا عمرؓ کے دور خلافت میں وصال فاروقی سے دو سال قبل مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حسن بصریؒ جب پیدا ہوئے تو سیدنا عمرؓ کی خدمت میں لائے گئے۔ آپؓ نے اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں کھجور کا لعاب ٹپکایا اور فرمایا: اس (بچے) کا نام حسن رکھو، کیوں کہ خوب صورت چہرے والا ہے۔ آپؒ کی تربیت ونگہداشت میں ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ کا بڑا حصہ ہے۔ سیدنا ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ حسن بصریؒ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر چودہ سال کی عمر میں بیعت ہوئے۔ اس کے بعد حسن بصریؒ کوفہ اور بصرہ کی طرف چلے گئے۔ آپؒ کے تین فرزند، علی، محمد اور سعید تھے۔ اسی بنا پر آپؒ کی تین کنیتیں مشہور ہیں، آپؒ ان تمام صفات سے متصف تھے جو ایک ولی کامل میں ہوتی ہیں۔ علم وعمل میں ان کا کوئی ہم سر نہیں تھا۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا دینی طبقہ ان کی تعریف اور مدح وستائش میں رطب اللسان رہا ہے۔ حجاج بن ارطاۃ کہتے ہیں کہ میں نے عطاء بن ابی ریاح سے حسن بصریؒ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم اس شخص کو مضبوطی سے پکڑ لو، وہ بڑے امام ہیں، اْن کی پیروی کی جاتی ہے۔ حماد بن سلمہ، یونس بن عبید اور حمید طویل سے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے فقہاء بہت دیکھے ہیں لیکن حسن بصریؒ جیسا مروت والا کسی اور کو نہیں دیکھا۔ اعمش فرمایا کرتے تھے کہ حسن بصریؒ ہمیشہ حکمت جمع کرتے رہے، پھر اس کو کہنا شروع کیا۔ امام باقرؒ فرمایا کرتے تھے کہ حسن بصریؒ کا کلام انبیاء کے مشابہ ہوتا ہے۔ آپؒ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے۔
اوصاف حمیدہ
سیدنا حسنؒ پرہیز گاری اور زہد وتقویٰ میں بے مثال تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ تقویٰ اور پرہیز گاری دین کی بنیاد ہے۔ لالچ او رحرص اس بنیاد کو ختم کر دیتے ہیں۔ سنت نبوی کے ساتھ والہانہ اور عاشقانہ تعلق رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ اتباع سنت کا لحاظ فرماتے۔ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ خوف وخشیت حد درجہ آپ میں موجود تھا۔ بسا اوقات فرمایا کرتے تھے کہ اس خوف سے روتا ہوں کہ کہیں کوئی ایسا قصور نہ مجھ سے سر زد ہوگیا ہو جس کی وجہ سے حق تعالیٰ یہ فرما دیں کہ اے حسن! ہماری درگاہ میں تمہارا کچھ مرتبہ نہیں رہا۔ اور اب ہم تمہاری کوئی عبادت قبول نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ کسی جنازے کے ہمراہ قبرستان تشریف لے گئے، تدفین کے بعد آپؒ قبر کے سرہانے پر بیٹھ کر خوب روئے۔ پھر فرمایا: اے لوگو! خبردار ہو جاؤ۔ دنیا کی انتہا اور آخرت کی ابتدا یہی قبر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے ایک منزل ہے۔ لہٰذا ایسی دنیا سے کیوں محبت رکھتے ہو جس کا انجام یہ قبر ہے اور اس قیامت سے کیوں نہیں ڈرتے جس کی ابتدا یہ قبر ہے؟ آپؒ کی یہ نصیحت کچھ ایسے درد بھرے الفاظ میں تھی کہ سارا ہی مجمع رونے لگا۔ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے او راس کے گھر والے رونا شروع کرتے ہیں تو ملک الموت اس مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ میں نے اس کی روزی نہیں کھالی۔ یہ اپنی روزی ختم کرچکا تھا، میں نے اس کی عمر کم نہیں کی، مجھے تو اس گھر میں پھر آنا ہے اور بار بار آنا ہے، یہاں تک کہ سب ختم نہ ہو جائیں۔ پھر فرمایا: خدا کی قسم! اگر گھر والے اس وقت اس فرشتے کو دیکھ لیں اور اس کی بات سن لیں تو مردے کو بھول کر اپنی فکر میں پڑ جائیں۔
تواضع وانکساری آپؒ میں بہت تھی، ہمیشہ اپنے آپ کو ایک معمولی آدمی، بلکہ اس سے بھی کم تر سمجھا۔ بسا اوقات کسی کتے کو دیکھ کر فرماتے کہ اے اللہ! مجھے اس کتے کے صدقے میں قبول فرمالے۔ اْن کا ارشا دہے کہ آدمی سے جب تہجد چھوٹتی ہے توکسی گناہ کی وجہ سے چھوٹتی ہے۔ شروع رات میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا کرو اور دن میں اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کر لیا کرو، تاکہ تہجد نصیب ہو۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ تہجد اس شخص پر گراں ہوتا ہے جس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں۔ سیدنا حسن بصریؒ کو حق تعالیٰ شانہ نے تقریر کرنے کا بڑا ملکہ عطا فرمایا تھا، ہفتے میں ایک بار وعظ ہوتا تھا۔ عوام کی بہت بڑی تعداد آپؒ کا وعظ سننے کے لیے جمع ہوا کرتی تھی، جس میں اپنے اپنے زمانے کے صلحا واتقیا تک شریک ہوا کرتے تھے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ جب بصرہ میں تشریف لائے تو حسن بصریؒ کی محفل میں تشریف لے جاکر دریافت کیا کہ حسن تم عالم ہو یا طالب علم؟ فرمایا: کچھ بھی نہیں۔ ہاں! جتنا نبی اکرمؐ سے پہنچا ہے، اس کو بتلا دیتا ہوں۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا: یہ جوان وعظ کہنے کے لائق ہے۔ یہ فرما کر وہاں سے روانہ ہوگئے اور تمام واعظوں کو وعظ کہنے کی ممانعت کردی۔
انتقال
ہشام بن عبدالملک کے دور حکومت میں باختلاف روایات چار محرم یا یکم رجب 110ھ میں 89 سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور بصرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ صاحب سیرا الاقطاب نے آپؒ کے پانچ خلیفے شمار کرائے ہیں۔ ان میں چشتیہ سلسلے میں شیخ عبدالواحد بن زیدؒ ہیں۔
(ماخوذ: تاریخ مشائخ چشت :862)