کیا ہمارا جہنم دوسرے لوگ ہیں؟

899

مغرب کے ممتاز فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر کا مشہور زمانہ فقرہ ہے۔ ہمارا جہنم دوسرے لوگ ہیں۔ سارتر کا یہ فقرہ جدید مغربی تہذیب کی روح کو بیان کرتا ہے۔ خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کے بعد مغرب میں انسانی رشتوں کے بیشتر مشترکات غائب ہوگئے۔ ان کے درمیان نہ خدا مشترک رہا نہ رسول مشترک رہا، نہ کتاب مشترک رہی۔ اس کے برعکس وہاں ایک ایسی فرد پرستی نے جنم لیا جس نے فرد کو معاشرے میں اجنبی بنا کر کھڑا کردیا۔ چناں چہ سارتر کو دوسرے لوگ مہربان نظر آنے کے بجائے جہنم نظر آنے لگے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ بھی تیزی کے ساتھ مغربی بنتا جارہا ہے۔ چناں چہ فرد کے لیے معاشرہ ڈھال کے بجائے تلوار بنتا جارہا ہے۔ ندا فاضلی نے بہت پہلے کہا تھا۔
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
اگر کسی کو گرا کر نکل سکو تو چلو
یہ شعر ایک روایتی مذہبی معاشرے میں کہا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ اس لیے کہ ایک روایتی معاشرے میں خدا، مذہب اور رسول کا تعلق فرد کو فرد سے جوڑے رکھتا ہے۔ یہ تعلق فرد کو فرد کا محافظ بناتا ہے۔ بدقسمتی سے اب ہمارے سامنے ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں لوگ تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کا جہنم بن رہے ہیں۔ اس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے معاون اور مددگار نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے والے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کو ضرر پہچانے والے ہیں۔ ایک دوسرے کو گرا کر آگے بڑھنے کی خواہش رکھنے والے ہیں۔ ایک دوسرے کو تنہا کرنے والے ہیں۔ اس معاشرے میں ہر طرف مقابلے اور مسابقے کا بازار گرم ہے۔ اس صورت حال کو انگریزی میں Rat Race کہا جاتا ہے۔ اس ریٹ ریس کا دبائو جان لیوا ہے۔ آئیے اس سلسلے میں آپ کو چند واقعات سناتے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق اٹھارہ سالہ سارہ نے اپنی سانس کی ڈور خود کاٹ ڈالی۔ یہ اس دن کی بات ہے جب اس کی عمر کے نوجوان ٹی ٹوئنٹی کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔ سارہ نے کالج کی چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کرلی۔ سارہ تعلیمی ٹیسٹ میں زیادہ ذہنی دبائو کی وجہ سے کلاس میں بے ہوش ہوگئی تھی۔ وہ ہوش میں آئی تو کلاس ٹیچر نے اس کی بے ہوشی کو ’’ڈراما‘‘ قرار دیتے ہوئے صدر شعبہ کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے سارہ سے ہمدردی کرنے کے بجائے کہا آپ اپنے مسائل حل کرکے کالج آیا کیجیے۔ آپ کی تعلیمی رپورٹ دیکھ کر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ آپ خودکشی کرلیں تو بہتر ہوگا تا کہ دنیا میں ایک نالائق کم ہوسکے۔ سارہ کے والدین بھی اس سے ناراض تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی پڑھائی پر پندرہ سولہ لاکھ روپے خرچ کرچکے ہیں۔ اس ماحول اور فضا میں سارہ کو یہی بہتر لگا کہ وہ چھت سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے۔ (روزنامہ جنگ۔ 6 نومبر 2021ء)
یہ ہماری یونیورسٹی کے زمانے کا واقعہ ہے۔ ہماری کلاس فیلو کی بھانجی میڈیکل کے فائنل ایئر میں تھی۔ میڈیکل کی پوری تعلیم ہی مشکل ہے مگر ایم بی بی ایس کا آخری سال بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔ وہ اس دن جو پیپر دے کر آئی تھی وہ اچھا نہیں ہوا تھا۔ اس لیے وہ پریشان تھی۔ اس پر اگلے پرچے کی تیاری کا دبائو بھی تھا۔ وہ پڑھتے پڑھتے پانی پینے کے لیے باہر آئی۔ اسے باہر آتے ہوئے اس کی نانی نے دیکھا۔ اس نے پانی پیا اور دوبارہ پڑھنے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد کوئی کمرے میں گیا اس نے دیکھا کہ وہ مرچکی ہے۔ اس کا ذہنی اور نفسیاتی دبائو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
ہماری بیگم صاحبہ کے پڑوس میں ایک خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ گھر میں سب پڑھے لکھے تھے۔ خاتون خانہ اپنے بچوں کو اچھی طرح پڑھنے اور اچھے نمبر لانے کی تلقین کرتی رہتی تھیں۔ ان کے بیٹے کے امتحانات ہورہے تھے وہ سارا سارا دن پڑھتا رہتا۔ ایک روز دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کے بہت سے رشتے دار گھر میں آئے ہوئے ہیں۔ خیریت معلوم کرنے کے لیے پوچھا تو پتا چلا کہ لڑکا امتحان کے دبائو کی وجہ سے ’’پیرالائز‘‘ ہوگیا ہے۔ اس کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے علاج کے باوجود لڑکے کی حالت سنبھل نہ پائی اور اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔
اپنی تمام تر مذہبیت کے باوجود ہمارا معاشرہ گھڑ دوڑ کا منظر پیش کررہا ہے۔ سیاست کے دائرے میں ہر طرف سیاسی گھوڑے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ اس آپا دھاپی میں کوئی پنجابیت کے گھوڑے پر سوار ہے، کوئی مہاجریت کے گھوڑے کی سواری گانٹھ رہا ہے، کوئی سندھیت کے گھوڑے کی باگیں پکڑے ہوئے ہے۔ ہر گھوڑا دوسرے گھوڑوں کو گرا کر آگے نکلنے کے چکر میں ہے۔ اس گھڑ دوڑ کا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ اس دوڑ کا کوئی اصول نہیں ہے۔ اصل چیز فتح ہے۔ جس کا گھوڑا جیت گیا وہ کامران ہوگیا۔ اس کی زندگی، زندگی بن گئی۔ اس کا پرچم معاشرے میں سب سے بلند ہوگیا۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاسی زندگی میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی صرف ’’حریف‘‘ ہوا کرتی تھیں مگر اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف نہیں ’’دشمن‘‘ ہوتی ہیں۔ ہماری قومی زندگی کے پندرہ بیس سال پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی کشمکش کی نذر ہوگئے۔ اب مدتوں سے قوم نواز لیگ اور تحریک انصاف کی ’’دشمنی‘‘ کا بوجھ اٹھائے پھر رہی ہیں۔ سیاست قوم کی خدمت کا دوسرا نام ہے۔ جماعت اسلامی آج تک اقتدار میں نہیں آئی مگر وہ اقتدار میں آئے بغیر قوم کی خدمت کررہی ہے۔ ملک میں زلزلہ آتا ہے تو جماعت اسلامی ریاست کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔ ملک میں سیلاب آتا ہے تو جماعت اسلامی سب سے آگے ہوتی ہے۔ جماعت کا شعبہ خدمت خلق ہر سال لاکھوں لوگوں کے کام آتا ہے۔ مگر نواز لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ہو یا ایم کیو ایم ان کے لیے سیاست صرف گھڑ دوڑ ہے۔ معاشرے میں ایک اور سطح پر دولت جمع کرنے کا مقابلہ جاری ہے۔ کروڑوں لوگ مشاہدے اور تجربے سے جان گئے ہیں کہ عزت صرف دولت مند ہونے میں ہے۔ چناں چہ لوگوں کو دولت مند بننے کے لیے رشوت لینی پڑے تو وہ رشوت لیتے ہیں۔ چور بازاری کرنی پڑے تو وہ چور بازاری کرتے ہیں۔ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرنے پڑیں تو وہ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی اور دوسروں کی زندگی کو جہنم بنائے دے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے تعلیم بھی ایک مقابلہ اور ایک مسابقت بن گئی ہے۔ لاکھوں لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اس طرح اپنی اولاد کو معاشرے میں محترم بناسکیں گے۔ تعلیم کے دائرے میں Rat Race کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک زمانے میں ہر کوئی اپنے بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ عزت اور دولت انہی دونوں شعبوں میں تھی۔ پھر کامرس کا زمانہ آیا اور ہر کوئی اپنے بچے کو ایم بی اے کرانا چاہتا تھا۔ اب معاشرے کو آئی ٹی کے بخار نے گرفت میں لیا ہوا ہے۔ جسے دیکھو وہ آئی ٹی کے شعبے میں کچھ کرنا چاہتا ہے۔ چوں کہ لاکھوں والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر بڑا سرمایہ خرچ کرتے ہیں اسی لیے وہ اپنے بچوں پر بہتر تعلیمی کارکردگی کے لیے اتنا دبائو ڈالتے ہیں کہ بعض بچے ذہنی دبائو کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ اس سلسلے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کو کامیاب دیکھ کر اپنی زندگی کی ناکامیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں اچھی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتا مگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ٹاپ کریں۔ ہم نے خود ایک ایسی خاتون کو دیکھا جو اپنی بچی کو کلاس میں سیکنڈ پوزیشن لانے پر سخت سست کہہ رہی تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وہ کلاس میں فرسٹ آکر دکھائے۔ والدین کا یہ رویہ بچوں کے ساتھ دوستی نہیں ان کے ساتھ دشمنی ہے۔
ہماری تہذیب میں استاد کا مرتبہ والدین سے بھی بلند ہے۔ اس لیے کہ والدین تو بچے کو صرف دنیا میں لاتے ہیں۔ یہ استاد ہوتا ہے جو بچے کو بہترین مسلمان اور بہترین انسان بناتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے اسکول، کالج اور جامعات ایسے اساتذہ سے بھر گئی ہیں جو استاد کے نام پر ایک دھبے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس چوں کہ خود علم نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنے طالب علم کو صاحب علم نہیں بنا پاتے۔ ان کے پاس چوں کہ خود اخلاق نہیں ہوتا اس لیے وہ طلبہ کی اخلاقی تربیت بھی نہیں کرپاتے۔ ہمارے نزدیک بہترین استاد وہ ہے جو اپنے اوسط درجے سے کم صلاحیت کے حامل طالب علم کو اوسط درجے کا طالب علم بنادے۔ جو اوسط درجے کے طالب علم کو ذہین طالب علم بننے میں مدد دے اور جو ذہین طالب علم کو ایک عبقری یا Genius میں ڈھال دے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں، ہمارے کالجوں اور ہماری جامعات میں کتنے اساتذہ یہ کام کررہے ہیں؟