کراچی کا ماضی حال اور مستقبل

809

شہر کراچی امت مسلمہ کا سب سے بڑا شہر ہے، یہ شہر ایک درخشاں ماضی اور عظیم روایتوں کا امین رہا ہے۔ 1947 میں ہجرت کی صعوبتیں برداشت کر کے شہر کراچی میں ڈیرہ ڈالنے والوں نے اپنی محنت اور مشقت سے اس شہر کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا۔ 1947 میں کراچی شہر کی کل آبادی تقریباً چار لاکھ 35ہزار تھی اور یہ کھارادر، میٹھادر اور صدر اور برنس روڈ تک ہی محدود تھا۔ 1843 میں جب انگریزوں نے اس شہر میں قدم جمایا تو یہاں بندر گاہ کے ساتھ ساتھ ریلوے اسٹیشن اور آمدو رفت کے دیگر ذرائع قائم کیے گئے۔ 1843 میں کراچی کی کل آبادی دس ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس شہر نے ایک نئی کروٹ لی۔ ہندوستان سے لٹے پٹے مہاجرین نے نمائش کے قریب قائد آباد، گولی مار، لالو کھیت، لیاقت بستی، قائد آباد لانڈھی میں جھونپڑیاں ڈال کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے نمائش کے قریب مہاجرین کی بستی کا دورہ کیا اس موقع پر مہاجریں کی پریشانی اور مشکلات پر وہ بڑے دل گفتہ بھی ہوئے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے مہاجرین سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں جب مر جائو تو مجھے ان ہی جھونپڑیوں کے درمیان ہی دفن کرنا اور قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ان کی خواہش کے مطابق انہیں ان ہی جھونپڑیوں کے درمیان دفن کیا گیا اور ان کے مزار کی تعمیر کے لیے وہاں رہائش پزیز افراد کو کورنگی میں آباد کیا گیا۔
بندر گاہ ہونے کے باعث کراچی جلد صنعت وحرفت کا ایک بہت بڑا شہر بن گیا۔ پورے ملک سے لوگ روزگار کے لیے اس شہر میں امنڈ آئے اور اس شہر نے ماں کی طرح سب کو اپنی گود میں سمو لیا اور سب ہی کو اس شہر نے روزگار دیا۔ جیسے جیسے اس شہر میں آبادی بڑھتی گئی ویسے ویسے اس شہر کے مسائل میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہوتا گیا۔ حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ شہر روز بروز تنزلی کی جانب رواں دواں ہوتا رہا۔ اس شہر کے وسائل پر پورے ملک کی معیشت کا دارمدار تھا اور 75فی صد سے زائد وسائل یہ شہر حکومت کو فراہم کرتا ہے لیکن شومی ٔ قسمت کہ پاکستان کو اب تک ایسے حکمران ہی میسر نہیں آسکے جو اس شہر کے بنیادی مسائل حل کرنے کے بارے میں سوچتے بھی۔ آج الحمدللہ لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی میں اورنج لائن، گرین لائن بسوں کا ایک بڑا نیٹ ورک چل رہا اور بین الاقوامی طرز کی بسیں اور روڈ متعارف کرائے گئے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کا سب سے بڑا شہر جہاں ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ یہاں پر مسافر جانوروں کی طرح بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اور بسوں میں لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ نوازشریف کے دور حکومت میں شروع کیا گیا گرین لائن منصوبہ جس کا موجودہ حکمران دو مرتبہ افتتاح کر چکے ہیں، نمائش چورنگی تک ہی تعمیر ہوسکا ہے جبکہ اس کو ٹاور تک جانا ہے۔
کراچی کے تمام اہم اداروں پر سندھ حکومت نے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ کراچی کے ڈومیسائل پر بیرون کراچی کے افراد کی بھرتیاں کرکے کراچی کے نوجوانوں کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا اور نفرت کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا۔ کراچی ٹریفک پولیس میں چالیس ہزار اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا اور ایک فرد بھی کراچی کا نہیں تھا۔ کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ سیوریج کا پورا نظام ناکارہ اور بوسیدہ ہوچکا ہے۔ بلدیہ کراچی سے سولڈ ویسٹ کا محکمہ بھی لے لیا گیا ہے اور سندھ سولڈ ویسٹ کا نام دے کر اس کے وسائل پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ خرچے پورے ہورہے ہیں لیکن کچرا روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے اور پورا شہر آج کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جمعیت الفلاح کے تحت کراچی کی صورتحال پر ایک مذاکرہ ’’کراچی ماضی حال مستقبل‘‘کا انعقاد کیا گیا تمام ہی مقررین اور درد دل رکھنے والو نے کراچی کا نوحہ پڑھا۔ اس تقریب کا حاصل ہی یہ ہے کہ حکمرانوں کو کراچی کے عوام کے ساتھ اب کھلواڑ بند کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم صاحب نے گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا یہ اعلان اب تک خبروں تک ہی محدود ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے جس کا کام عدالت عظمیٰ کے احکامات پر شروع کیا گیا تھا ہنوز تعطل کا شکار ہے اور دور دور تک اس کے جلد چلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ کچھ دنوں سے خفیہ طور پر کراچی کی لسانی جماعتوں میں جان ڈالنے اور انہیں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کچھ سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ مہرے بری طرح پٹ چکے ہیں اور چلے ہوئے کارتوسوں میں کوئی جان بھی نہیں ہے۔ کچھ وہ بونے جن کی اپنی پارٹی میں کوئی وقعت نہیں وہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن اس کا اب کچھ حاصل نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پرانی تنخواہ پر ہی کام جاری رکھنا ہوگا ورنہ اس بھی ہاتھ دھونا پڑجائیگا۔
کراچی میں فراہمی آب پر مافیا کا قبضہ ہے اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے کراچی کو کربلا بنا دیا گیا ہے۔ کراچی کا پانی کراچی ہی کے عوام کو بیچا جا رہا ہے اور یہ کاروبار اتنا منافع بخش ثابت ہوا ہے کہ کچھ لوگوں نے تو اپنے ہیروئن کے اڈے بند کر کے پیسہ اس کاروبار میں لگا دیا ہے۔ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نورا کشتی میں مصروف ہیں۔ کراچی کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس شہر کا اگر ماضی بڑا شاندار تھا تو حال بڑا ہی بدحال اور مستقبل خوفناک نظر آرہا ہے۔ حکمران سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی حفاظت کرنے کے بجائے اس کو ذبح ہی کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس شہر کے بارے میں نہ تو وفاقی حکومت سنجیدہ ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کی کوئی منصوبہ بندی۔ سب لوٹو اور پھوٹھو کے چکر میں ہیں۔ کراچی کے تین کروڑ عوام بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور دور دور تک انہیں کوئی مسیحا نظر نہیں آرہا۔ جمعیت الفلاح کے مذاکرے میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کو بچانے اور اس کی روشنیاں بحال کرنے کے لیے جس لائحہ عمل کا اعلان کیا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو پھر روشنیوں کا شہر ایک بار پھر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ دیانت دار قیادت جو سب کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کا عزم رکھتی ہے ان شاء اللہ وہ ہی کراچی کے مستقبل کے معمار ثابت ہوں گے۔