کرپٹ سسٹم کا مقابلہ کیسے؟

435

وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کامیاب جوان پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں 25 سال پہلے سیاست میں آیا تو اس وقت یہ کہا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، جس ملک کے سربراہ وزیراعظم اور وزرا کرپٹ ہوں اور ملک کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جانا شروع کردیں تو قوم میں غربت کی شرح بڑھتی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز اور قومی امراض کے تجزیے کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ وہ بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوں گے اور قوم کی دولت جو ملک سے چرا کر بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع ہے یا اس رقم سے جائدادیں خریدی گئی ہیں وہ واپس لائیں گے۔ وزیراعظم کا تازہ خطاب ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وہ حکومت میں تین برس کی مدت پوری کرچکے ہیں اور ان کی ناکامی کا تاثر پختہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کی تصدیق کرتے ہوئے اسے الزام قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ 3 سال سے کہا جارہا ہے کہ ناکام ہوجائوں گا، مگر انہوں نے ایک بار پھر اپنی زندگی کی کامیابیوں کی مثال کو دہراتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارا پورا سسٹم کرپٹ ہے، اسے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا، میں اسے ٹھیک کرکے رہوں گا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اپنے کارنامے بھی گنائے ہیں، لیکن ان تین برسوں میں جس تیزی کے ساتھ مہنگائی بڑھی ہے، عوام کے لیے زندگی عذاب ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں نے جس طرح اقتصادی جکڑ بندی کو مزید سخت کیا ہے۔ اس نے عمران خان کی ناکامی کے تاثر کو پختہ کردیا ہے۔ ان کے پاس تقریروں، دعوئوں اور خطابات تو ہیں، کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔ البتہ اس حقیقت میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہے کہ بدعنوانی، مفاد پرستی اور ضمیر فروشی نے پورے سسٹم کو کرپٹ کردیا ہے اور کرپشن اور بدعنوانی کی گندگی اور غلاظت سے کوئی طبقہ نہیں بچا ہوا ہے۔ عوام کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، عمران خان کی جماعت کو پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے، جب کہ ایوان بالا میں حزب اختلاف کو عددی برتری حاصل ہے، لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں ایک کمزور حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ سسٹم کے کرپشن کی حقیقت کو دیکھنا ہو تو عدالت عظمیٰ میں ازخود نوٹس لیے جانے والے مقدمات کی تفصیلات کا مطالعہ کرلیا جائے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور صنعت و تجارت کا مرکز ہے۔ ملک کی پہلی اور بنیادی تجارتی بندرگاہی شہر ہے، لیکن اس شہر کو سیاست دانوں اور افسر شاہی نے مل کر تباہ کردیا ہے اور تباہی ایسی صورت اختیار کرچکی ہے کہ اصلاح کا کوئی سرا بھی نہیں ملتا۔ عدالت عظمیٰ میں یہ مسئلہ کئی بار زیر بحث آچکا ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمینوں کو بھی رہائشی، کاروباری اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ دفاعی اور فوجی مقاصد کے لیے جن زمینوں کو مختص کیا جاتا ہے وہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوتیں۔ باغات کے لیے مختص کی گئی اراضی سیاسی حکومتوں نے سرکاری ملازموں کی مدد سے رہائشی مقاصد کے لیے فروخت کردیا اور ہر ادارہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں لگ گیا۔ شہری کی بنیادی ضروریات پانی، نکاسی آب، باغات، ٹرانسپورٹ جیسی سہولتوں کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ایک تازہ مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ 50 برسوں میں کراچی میں سرکاری سطح پر ایک بڑا اسپتال بھی نہیں بنایا گیا ہے نہ ہی کسی سرکاری کالج کی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ اس لیے وزیراعظم کا یہ مشاہدہ تو درست ہے کہ پورا سسٹم کرپٹ ہوگیا ہے، لیکن وہ کرپٹ سسٹم کے مقابلے میں اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ فی الحال ان کی سیاسی طاقت برقرار رہنے کا سبب حزب اختلاف کی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ عمران خان کی ناکامی دیوار پر لکھی ہوئی حقیقت کی طرح اہل بصیرت کے سامنے تھی جب انہوں نے محض انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ’’الیکٹیبلز‘‘ پر انحصار کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور انہوں نے یہ بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ سیاسی مہم چلانے کے لیے انہیں مالی اعانت کہاں سے مل رہی ہے۔ سسٹم کے کرپٹ ہونے کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ احتساب کا نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ کوئی بھی فرد، گروہ، طبقہ، ادارہ تہمت سے پاک نہیں ہے۔ بدعنوان لوگوں کی اخلاقی پستی نے وہ گندگی اور غلاظت اچھالی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ہر فرد، گروہ، طبقہ ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم اور ان کی جماعت کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے لوگ بھی الزامات اور شکوک و شبہادت سے پاک نہیں ہیں۔ صرف اس بات کا مقابلہ ہورہا ہے کہ کون زیادہ کرپٹ ہے، کون کم۔ قوم کا سب سے بڑا اور اصل المیہ یہ ہے کہ سیاسی زندگی سے نظریاتی، اصول پسند، جرأت مند اور دیانت دار اشخاص اور جماعتوں کو بے دخل کیا گیا۔ یہ عمل ریاستی پالیسی کا کلیدی نکتہ رہا ہے۔ جس نے پورے سسٹم کو کرپٹ کردیا ہے۔