جرمنی، ہر ڈھائی دن میں ایک خاتون اپنے دوست،ایکس فرینڈ یا شوہر کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے،رپورٹ

816

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، مغربی معاشرے میں خواتین کی آزادی یا استحصال؟جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کے مطابق جرمنی میں روزانہ ایک خاتون کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہےجبکہ ہر ڈھائی دن میں ایک خاتون اپنے شوہر، دوست یا ایکس بوائے فرینڈ (سابقہ ساتھی) کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتی ہے۔

جرمنی میں تقریباﹰ ہر ڈھائی دن بعد ایک خاتون موت کے منہ میں چلی جاتی ہے اور اس واردات کے پیچھے ہاتھ اس کے شوہر، دوست یا پھر سابقہ پارٹنر کا ہوتا ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر یہ اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔

”ایک مرد کا اپنی خاتون پارٹنر کا گلا دبانا، شوہر کی جانب سے بیوی کا شدید استحصال کرنا اور ایک خاتون ڈاکٹر پر اس کے سابقہ ساتھی کا خنجر سے اٹھارہ وار کرنا ‘‘۔ جرمنی میں حالیہ دنوں کے دوران یہ واقعات شہ سرخی بننے۔

ایسی خبریں اس ملک میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی جانب نشاندہی کرتی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والی وفاقی پولیس (بی کے اے) کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء کے دوران تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار خواتین اور 29 ہزار مرد تشدد کے متاثرین میں شامل تھے۔ یہ تعداد 2019ء کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق پارٹنر کی جانب سے مار پیٹ گھریلو تشدد کی ایک قسم ہے۔ جنسی استحصال، تعاقب کرنا اور آزادی کو محدود کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ قتل یا قتل کی دھمکی دینا یا قتل کے ارادے سے حملہ کرنا بھی گھریلو تشدد ہی ہے۔

جرمنی میں روزانہ اوسطاﹰ ایک خاتون کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2020ء میں 139 خواتین اپنے پارٹنر یا ایکس بوائے فرینڈ کے ہاتھوں ماری گئیں۔

گزشتہ بیس برسوں کے دوران کی پیش رفت کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کو کم کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے

خاندانی امور کی جرمن وزیر کرسٹینے لامبریشٹ نے ان اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد کہا، ”ہم اجازت نہیں دے سکتے کہ مزید ایسا ہو۔‘‘ انہوں نے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اکثر ایسے جرائم کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔

صنف کی بنیاد پر کسی خاتون کو قتل کرنے کو ‘فیمیسائڈ‘ کہتے ہیں اور جرمنی میں یہ اصطلاح کافی زیادہ استعمال ہو رہی ہے۔

سماجی علوم کی ماہر مونیکا شوروٹل کہتی ہیں کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران ہونے والی پیش رفت کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کو کم کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”صنفی عدم مساوات کی صورتحال تبدیل نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے۔ اتنے طویل عرصے تک خاتون چانسلر رہنے کے باجود بھی خواتین اور مردوں کو برابر نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی یکساں برتاؤ نہیں کیا جاتا۔