قائمہ کمیٹی قانون انصاف میں ترامیمی بل پر ووٹنگ نہ کرانے پر اپوزیشن کا شدید احتجاج  

217

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف میں نیب دوسر ے  اور تیسر ے  ترامیمی بل پر ووٹنگ نہ کرانے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج  کرتے ہوئے کہاکہ آج کمیٹی میں اپوزیشن کے تمام ارکان موجود تھے جبکہ حکومتی ارکان کم تھے اس لیے رمین کمیٹی نے ووٹنگ نہیں کرائی،نیب ترامیمی بل سے حکومت اپنے آپکو این آراو دیناچاہتی ہے،بل کوکمیٹی سے مسترد کریں گے ہماری ارکان کی تعداد زیادہ ہے،حکومت سنجیدہ ہے تو آرڈیننس واپس لے اورتب حکومت کے ساتھ بات کریں گے،حکومت نے نیک نیتی سے آرڈیننس نہیں لائی ہے،وزیر قانون فروغ نسیم نے کہاکہ اپوزیشن نیب قانون میں ترامیم کایہ موقع ضائع نہ کریں ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے موقع ضائع کیا تواس کو بھگتا بھی ہے،اپوزیشن جو ترامیم لاناچاہتی ہے ہم قبول کرنے کوتیار ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ نیب ترمیمی بلز پر کمیٹی میں اتفاق رائے پید اکرکے پاس کریں گے،کمیٹی نے بلوں کے محرکوں کے کمیٹی میں غیرحاضری پر نوٹس جاری کرنے کافیصلہ کرتے ہوئے آئندہ نہ آنے پر بل مسترد کرنے کافیصلہ کرلیا۔ بدھ کو  قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون انصاف کااجلاس چیرمین کمیٹی ریاض فتیانہ کی سربراہی میں ہوا۔اجلاس میں رکنی کمیٹی لال چند،کشورزہرہ،ملیکہ بخاری،آغا حسن بلوچ،جنید اکبر،شنیلہ رتھ، راناثنا اللہ خان،چوہدری محمود بشیرورک، عثمان ابراھیم، خواجہ سعد رفیق،محسن شاہ نواز رانجھا،قادرخان مندوخیل،نفیسہ شاہ،نوید قمر اور عالیہ کامران  نے شرکت کی جبکہ وزیر قانون فروغ نسیم اور سیکرٹری قانون شریک ہوئے ہیں۔کمیٹی میں تین بلوں کے محرک  مہناز اکبر عزیز،نصرت وحید اور جے پرکاش کے نہ آنے پر کمیٹی نے شدید برہمی کااظہارکیااور کہاکہ بلوں کے محرک سنجیدہ نہیں ہے اس لیے ایجنڈے کوختم کیاجائے جس پر  چیئرمین نے تینوں بلوں کے محرک کو نوٹس دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ اگر آئندہ اجلاس میں بلوں کے محرک نہ آئیں تو تینوں بلوں کومسترد کردیاجائے گا۔وزیر قانون فروغ نسیم کمیٹی میں دیر سے آئے جس پر کمیٹی نے ان کوانتظار کیا حکومتی رکن نے اپوزیشن کوکہاکہ وہ اس پر واک آوٹ کریں تو میں بھی ان کاسا تھ دوں گا۔ جس پر اپویشن ارکان نے کہاکہ ہم آج واک آوٹ نہیں کریں گے آج ہم  وزیر کاانتظار کریں گے۔ محسن شاہ نواز  نے کہاکہ بار کونسل کے الیکشن میں اخراجات کی بھی حد مقرر کی جائے۔نیب دوسر ے ترمیمی  بل 2021اور نیب تیسر ے  ترمیمی بل2021پر سیکرٹری قانون نے بتایاکہ نیب دوسری ترمیم میں پانچ ترامیم ہیں۔ٹیکس کے معاملات کو نیب آرڈیننس کے ذریع نیب کیے دائرہ اختیار سے نکل دیا ہے جس کے تحت وفاقی و صوبائی کابینہ کے فیصلوں کو استثنی دے دیاگیا ہے۔رانا ثنائاللہ نے کہاکہ اگر کسی نے جان بوجھ کر نقصان پہنچایا ہوتو اس کو سزا کون دے گا۔وزیر قانون فروغ نسیم نے کہاکہ بل میں اپوزیشن جو اصلاح کریں گے ہم قبول کریں گے۔کابینہ کی فیصلے سب مل کرتے ہیں اس طرح سب ذمہ دار ہوں گے نیب کومکمل  غیر فعال نہیں کرسکتے  اگر نیب کے دائرہ اختیار سے کابینہ کے فیصلوں کو نکالیں گے تو ایف آئی اے اور انٹی کرپشن بھی کاروائی کرسکتا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہاکہ ان اداروں کا سربراہ حکومت لگاتا ہے وہ کس طرح کاروائی کرسکتے ہیں۔فروغ نسیم نے کہاکہ نیب  چیئرمین کو بھی کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔یہ نیب آرڈیننس کو ٹھیک کرنے کاموقع ہے اس کوضائع نہ کریں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے موقع ضائع کیا توان کوہی یہ بھگتنا پڑا۔سعد رفیق نے کہاکہ آپ کو یہ بات بہت دیر سے سمجھ آئی ہے۔فروغ نسیم نے کہاکہ کابینہ کے فیصلوں کے خلاف نیب نے انکوائری شروع کی ہے یہ ہواہے۔عالیہ کامران نے کہاکہ ہم نیب کے قانون کو نہیں مانتے ہیں۔جو عمل قانون کے بننے سے پہلے جرم تھا اب جرم نہیں ہے یہ حکومت نے اپنے آپ کو این آر او دیا ہے سابقہ دور کے لوگ اس جرم میں پیش ہوں گے جبکہ ان کے دور کے لوگ پر یہ کیس نہیں ہوگا۔کشور زہرہ نے کہاکہ دنیا اب سیاست نہیں معیشت کے لیے کام کررہی ہے نیب کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا مگراب افسران نے کام کرنا روک دیا ہے اس لیے نیب میں ترمیم ضروری ہے معاشی بہتری کے لیے نیب ترامیم ضروری ہے۔بشیر محمود ورک نے کہاکہ نیب آرڈیننس میں ترمیم نیک نیتی سے نہیں دی گئی ہے آرڈیننس خاص مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔تین سال سے اس قانون کے تحت اپوزیشن کے تمام اہم ارکان کو جیل میں بھیجا گیا وقت گزر جانے کے بعد اس میں ترمیم لائی گئی ہے۔یہ آرڈیننس نیک نیتی سے نہیں ہے اس کو مسترد ہونا چاہیے۔متنازعہ ترمیم نکالیں تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔چیرمین نیب کو توسیع دینے کے لیے یہ آرڈیننس لایا گیا۔چیرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل پر اتفاق ارائے پیداکرکے پاس کرنے کی کوشش کی جائے گی نیب  میں ترامیم کرنا ضروری ہے۔لعل چند نے کہاکہ اس بل پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔کرپشن ملک کو پیچھے لے کر گیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ آئین میں آرڈیننس کا اختیار مخصوص حالات کے لیے ہے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری  بنادیاگیاہے یہ آئین کے رو کے خلاف ہے ایک دن اسمبلی کا اجلاس ختم کیا جاتا ہے اور آرڈیننس جاری کردیا جاتاہے  اور اجلاس دوبارہ بلالیاجاتاہے حکومت پہلے آرڈیننس واپس لیں اور اس کے بعد مذاکرات کریں گے متحدہ اپوزیشن کی یہی رائے ہے۔بتایاجائے صوبائی چیف جسٹس کو ججوں کی تعیناتی سے باہر کیوں رکھ گیا ہے ریٹائرڈ سیشن جج کو ہائی کورٹ جج کے اختیار کیوں دیئے جارہے ہیں وہ حکومت کی بات کرے گا۔چیرمین نیب کو توسیع نہیں ملنی چاہیے کیا کوئی بھی قابل بندہ نہیں ہے اوروں کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ چیئرمین نیب کی آزادی صلب ہوجائے گی جب اس کو صدر تعینات  کرئے گا۔اپوزیشن کے مقدمات پرانے قانون کے تحت چلیں گے جبکہ ان کے نئے قانون سے چلے گے۔یہ قانون عدالت سے مسترد ہوجائے گا۔ ایسے قوانین لاکر خود شرمندہ نہ ہوں۔آرڈیننس واپس لئے جائیں۔آرڈیننس جاری کرنااسمبلی کی توہین ہے اس کو بند ہونا چاہیے۔ محسن شاہ نواز رانجھا نے کہاکہ آرڈیننس سے پارلیمنٹ کی بے توقیری میں اضافہ ہوگا قانون سازی سے ایوان کی عزت میں اضافہ ہوگا۔واہ فیکٹری میں اتنا اسلحہ نہیں بن رہاہے جتنا ایوان صدر میں آرڈیننس بن رہے ہیں۔ جن لوگون نے تین سال میں غلط فیصلے کئے ہیں ان کو بچانے کے لیے یہ آرڈیننس لایا گیا ہے،وزیر قانون فروغ نسیم نے سوال کیاکہ کیا مسلم لیگ جب تک آرڈیننس واپس نہیں لایا جاتا بل ہر بات نہیں کرے گی؟ سعد رفیق نے کہاکہ ایوان میں متحدہ اپوزیشن بن چکی ہے ہم ایک جماعت کے نمائندے نہیں بلکہ یہ متحدہ اپوزیشن کا موقف ہے۔آرڈیننس پر آرڈیننس آرہاہے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیار کا ناجائز استعمال ہورہاہے۔ ایم کیوایم شریر ہوتی تھی اب اچھا بچہ بن چکی ہے۔اس دوران نے اپوزیشن ارکان نے چیرمین کمیٹی سے بل پر رائے شماری کرنے کاکہاجس پر وزیر قانون ضروری کام کاکہے کر کمیٹی سے چلے۔اپوزیشن کے باربار بل پر ووٹنگ کی اسرار پر چیرمین کمیٹی نے کہاکہ بل پر اتفاق رائے پیداکیاجائے گا اج پہلااجلاس ہے اس پر مزید بحث بھی ہوگی اور اسی دوران چیرمین کمیٹی اجلاس ملتوی کردیا۔ووٹنگ نہ کرانے اور اجلاس ملتوی کرنے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیاکہ آج کمیٹی میں اپوزیشن کی تعداد زیادہ تھی جبکہ حکومتی ارکان نہیں آئے تھے جس پر ووٹنگ نہیں کی گئی۔