گیس کا بحران ۔ درآمد پرانحصار نہ کیا جائے

480

پورے ملک میں قدرتی گیس کا بحران سنگین ہو گیا ہے یہاں تک کہ حکومت نے گیس کی راشننگ اور لو ڈ شیڈنگ شروع کر دی ہے ۔ گھروں میں کھانا تیار کرنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک کے جن علاقوں میں گیزر اور ہیٹر کے بغیر گزارا نہیں وہاں یہ سہولتیں بھی بے کار ہو کر رہ گئی ہیں ۔اس سے قبل صنعتکاروں نے بھی گیس کی فراہمی میں عدم توازن پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ پیٹرولیم ڈویژن نے تاریخی قدم اٹھایا ہے یہ ایسا تاریخی قدم ہے جو پاکستان بھر میں اُٹھایا جاتا ہے ۔ ایک چھوٹے سے بم دھماکے سے لے کر بڑی دہشت گردی تک کسی بھی واقعے کے فوراً بعد پابندیاں لگا دی جاتی ہیں ۔ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند ۔ سوزوکی اور پک اپ کا داخلہ بند ۔ داڑھی والوں کا داخلہ بند تو پیٹرولیم ڈویژن نے نئے کنکشن پر پابندی لگا دی ہے ۔ ارے جب گیس ہو گی نہیں تو نیا کنکشن دیں گے کیسے ۔ اب آ جائیں اس بحران پر ، بیشتر اخبارات نے یہ تاثر دیا ہے کہ حکومت نے ایل این جی کی خریداری میں تاخیر کی ہے ۔ لیکن اصل وجہ یہ نہیں ہے بلکہ اصل وجہ وہی ہے جو سابق حکمرانوں کی غفلت سے اور موجودہ حکومت اس کا تسلسل ہے۔ یعنی گیس کے ذخائر کی تلاش اور عوام تک اس کی ترسیل ۔ پاکستان میں گیس کی فراہمی کا جو نظام ہے وہ شاید دنیا میں بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے پاکستانیوں کو ان کے گھروں میں پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جاتی ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ گھریلو صارفین کو گیس بھی کم نرخوں پر دی جاتی ہے لیکن گیس کے بلوں کی ادائیگی ۔ واجبات روکنا ، صنعتوں میں بلنگ میں گھپلے ۔ گیس کنکشن کے سائز اور ضرورت سے زیادہ گیس کی فراہمی وغیرہ بھی محل نظر رہنی چاہئیے ۔ یہ درست ہے کہ ہرگڑ بڑ میںمحکمے کا عملہ ملوث ہوتا ہے لیکن صارف کیوں بے ایمانی کرتا ہے ۔ حکومت اس بنیادی ضرورت کے لیے درآمد پر انحصار نہ کرے بلکہ خزانوں سے مالا مال زمین سے یہ گیس برآمد کی جائے یعنی تیل و گیس کی تلاش کا کام دوبارہ شروع کیا جائے ۔