غیر جمہوری سیٹ اپ کون لارہا ہے؟؟

761

ایک مرتبہ پھر پاکستانی عدلیہ زیر بحث اور موضوع گفتگو بن رہی ہے۔ گلگت بلتستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کے بعد ایک شور اٹھا تھا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جج کو ہدایت دی تھی کہ نواز اور مریم کی الیکشن تک ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔ اس بیان پر اب بحث ہوگی جو نہ جانے کتنے دن چلے گی لیکن اب موجودہ چیف جسٹس نے پھر ایک بات کہی ہے جو بہت واضح طور پر کسی خاص جانب اشارہ کررہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے۔ عدالتیں آزاد ہیں کسی میں ہمت نہیں کہ ہمیں ڈکٹیشن دے۔ الزامات لگانے والے انتشار نہ پھیلائیں۔ انہوں نے یہ گفتگو عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس کے موقع پر کی۔ اور کہا کہ آج تک کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے جو رانا شمیم کے بیان سے شروع ہوا تھا۔ یہ اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پڑی کہ عدالتیں آزاد ہیں، کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے۔ کیا عدالتوں کی آزادی کے بارے میں کوئی سنجیدہ الزام یا رپورٹ آئی ہے۔ کیا کسی نے غیر جمہوری سیٹ اپ لانے کی بات کی ہے یا کوئی ڈکٹیشن دینا چاہتا ہے یا پھر کوئی دبائو ہے۔ مگر ایسا تو بظاہر نہیں ہے اور عدلیہ کو اپنی آزادی کا اعلان کسی کانفرنس میں کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ایوان عدل کے فیصلوں سے عدلیہ کی آزادی کا اظہار ہونا چاہیے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی جج نے عدلیہ پر دبائو کی بات کی ہو اس سے قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی عدلیہ پر دبائو کی تردید کرتے ہوئے در اصل اس پر دبائو ہی کی بات کر رہے تھے ۔ تین سال قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور شوکت عزیز صدیقی ایک سینئر جج ہونے کے ناتے کھل کر یہ بات کہہ رہے تھے کہ ایک خفیہ ایجنسی عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے ۔اپنی مرضی کا بنچ بنواتی ہے، ایسا تو نہیں ہے کہ جسٹس شوکت عزیز کی ذہنی حالت خراب تھی بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہے جس کا شوکت عزیز صدیقی نے ذکر کیا تھا ۔ اور بعد میں ان کو معطل کرنے اور ان کا مقدمہ اب تک نہ چلائے جانے سے بہت کچھ سمجھ میں آتا ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے جسٹس شوکت عزیز نے بھی ایوان عدل میں یہ باتیں نہیں کی تھیں بلکہ ایک عام تقریب میں کہی تھیں اورجسٹس ثاقب نثار نے کراچی رجسٹری میں مقدمے کی سماعت کے دوران اس بیان پر اظہار افسوس کیا تھا ۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ عدلیہ کسی قسم کے دبائو میں نہیں ہے لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی یہی الزام لگایا تھا کہ خفیہ ایجنسی والے میرے چیف جسٹس پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو الیکشن 2018ء تک اڈیالہ جیل میں رکھیں۔ یہ کم و بیش وہی حوالہ ہے جو جسٹس رانا شمیم کے الزامات میں ہے ۔ بہر حال عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے اب یہ کہا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں کوئی دبائو نہیں، کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ۔ ان سب باتوں پر یقین کر لینا چاہئے کیونکہ ایک ذمے دار شخصیت نے یہ بیان دیا ہے لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ کیا جمہوریت کے نام پر قائم ہر سیٹ اپ جمہوری ہوتا ہے ۔پاکستان میں جمہوریت کی چیمپئن پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بھی جمہوریت کے نام پر ہی قائم ہوئی تھی چھ سات برس میں اس نے غیر جمہوری طریقوں کا ریکارڈ توڑ دیا ۔لیکن وہ پھر بھی جمہوری سیٹ اپ کہلاتا تھا۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں جمہوریت سے زیادہ غیر جمہوری طریقوں سے معاملات چلاتی رہیں لیکن دونوں جمہوری قرار پائے اور اب پی ٹی آئی کی حکومت کس قدر جمہوری ہے اس کو بھی جمہوری سیٹ اپ کہا جاتا ہے ۔ آج کل جس قسم کی حکومتیں دنیا بھر میں قائم کی جا رہی ہیں ان سب کو جمہوری حکومت ہی کہا جاتا ہے ۔ ان سب کو جمہوری سیٹ اپ قرار دیا جاتا ہے لیکن کیا یہ جمہوری سیٹ اپ ہے ۔ در اصل اس موجودہ سیٹ اپ کو بھی جمہوری بنانے کی ضرورت ہے ۔ عدالتیں بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ پاکستان میں غیر جمہوری سیٹ اپ ہمیشہ غیر جمہوری سیٹ اپ کے نام پر قائم ہوتا رہا ہے ۔ ایوب خان کا مارشل لا ، جنرل ضیا کا مارشل لا یا جنرل پرویز کا مارشل لا یہ سب غیر جمہوری تھے اور غیر جمہوری نام پر قائم تھے اور کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ یہ مارشل لا جمہوری تھے ۔ لیکن اب افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان کے جمہوریت کے نام پر قائم غیر جمہوری سیٹ اپ کو ہمیشہ جمہوری قرار دیا جاتا ہے ۔ عدالتیں بھی جانتی ہیں اور عوام بھی کہ جمہوریت کے نام پر کیا کیا ڈرامے ہوتے ہیں ۔ بسا اوقات تو کھلم کھلا بے ضابطگی ہوتی ہے ۔ حالیہ پارلیمانی ڈاکے کو کیا کہا جائے جس میں ایک نشست میں بحث کے بغیر33بلوںکو قانون بنا دیا گیا ۔ اسٹیٹ بینک ہاتھ سے نکلا ، مذہبی معاملات میںمداخلت ہوئی۔ انتخابی دھاندلیوں کے لیے انتظام ہو گیا اور جس بنیاد پر جمہوری سیٹ اپ قائم ہوتا ہے یعنی مردم شماری اس کو60ویں نمبر پر رکھ کر قانون سازی کی گئی اس کو جمہوری سیٹ اپ کون کہہ سکتا ہے ۔ ملک آرڈیننس پر چل رہا ہے اسے بھی جمہوری سیٹ اپ کہاجاتا ہے حکومتوںکے قیام میں بھی غیر جمہوری طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ارکان کی خرید و فروخت ہوتی ہے ۔ یہ سب اور بہت سے غیر جمہوری کام خلائی مخلوق ہی کرتی ہے ۔ پھر جسٹس رانا شمیم اور جسٹس شوکت عزیز کے الزامات پر غور کرنے کے بجائے ان پر افسوس کرنے سے یہ سیٹ اپ جمہوری کیسے ہو جائیں گے ۔ پورے ملک پر غیر جمہوری سیٹ اپ پہلے ہی مسلط ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے ۔ مذکورہ تقریب جس میں چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی کا اعلان کیا ہے ۔اسی کانفرنس میں دیگر ججوں نے بھی اظہار خیال کیا ہے ۔ ان میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ بھی شامل ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں غلطیاں ہوئیں آئندہ نہیں کریں گے ۔ انہیں یہ سادہ سی بات کہتے ہوئے یہ بات بھی سمجھ میں آ چکی ہو گی کہ وہ عام آدمی نہیں اگر جج غلطی کرے توکئی برس بعد محض یہ کہہ کر اس کی گلو خلاصی نہیں ہو سکتی کہماضی میں غلطیاں ہوئیں ۔ آئندہ نہیں کریں گے ۔ پھر تو جسٹس شوکت عزیز بھی عدالت میں پیش ہو کر کہہ دیں کہ غلطی ہو گئی آئندہ نہیں کریں گے اور رانا شمیم بھی۔ لیکن جج کی غلطی سے انصاف کا قتل ہوتا ہے اور آنے والے مقدمات بھی اسی غلطی کی روشنی میں فیصل ہوتے ہیں۔