پاکستان دنیا کے دیگر امن پسند طاقتور ممالک کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر حل کرائے، سابق سفارتکار

172

پاکستان دنیا کے دیگر امن پسند طاقتور ممالک کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر موثر عملدرآمد کرائے ورنہ ہندتوا کا نظریہ ناصرف بھارت کی نظریاتی بنیادوں بلکہ ہمسایہ ممالک کے لیے بھی خطرناک ہے۔

 ان خیالات کا اظہار سابق سفارتکاروں اور ماہرین امور خارجہ نے کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز (کے سی ایف آر) کے تحت بھارت زوال کی طرف، کے موضوع پر گزشتہ روز منعقدہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کونسل کے وائس چیئرمین ایڈمرل ریٹائرڈ خالد میر نے ویبینار کی صدارت کی اور ممبر بورڈ آف گورنرز سلیم زمیندار نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔

 مقررین میں سابق سفارتکار و وفاقی وزیر خارجہ حسین ہارون، سفارتکار عبدالباسط، ڈاکٹر ہما بقائی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ طارق خلیل، سی ای او کے سی ایف آر کموڈور ریٹائرڈ سدید ملک شامل تھے۔ حسین ہارون نے کہا کہ ہندتوا جیسے عناصر بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں۔

 تاہم پاکستان کو اپنا کام کرنا چاہیئے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے سکیورٹی کونسل ہی بہترین فورم ہے۔ بھارت ابھی تک کشمیر میں انتخابی عمل بحال نہیں کر سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر عالمی فورمز بشمول سکیورٹی کونسل میں لے کر جانا چاہیئے۔ سفارتکار عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے اس کاذ کو نقصان پہنچا ہے۔

 بی جے پی نے بھارت میں اقلیتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ مساجد کی شہادت، سانحہ گجرات، حالیہ ظالمانہ قانون سازی جیسے سٹیزن شپ ایکٹ اور مسئلہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات سے عیاں ہے۔ بھارت نے دونوں طرف ایٹمی طاقتیں ہونے کے باوجود بالاکوٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو اس کی بہت خطرناک غلطی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اب بھارت کے شہریوں کو چاہیئے کہ اگر وہ بھارت کی ترقی چاہتے ہیں تو انہیں اس سے جان چھڑانی ہو گی۔ مسلمان اور دیگر اقلیتیں اب بھارت میں اپنے اوپر مزید مظالم برداشت نہیں کریں گی۔ بھارت کا یہ رویہ خطے کے امن کے لیے بھی تباہ کن ہے۔

 عالمی قوتوں کے بھی اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں۔ عبدالباسط نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل خود بھارت کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ اس مسئلے کا کوئی الگ حل بھی سوچے۔ قبل ازیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر عالمی برادری نے نہیں بلکہ بھارت نے خود اپنے مفاد میں حل کرنا ہے۔ وہاں صرف مسلمان یا کشمیری ہی نہیں دیگر اقلیتیں خصوصا سکھ، دلیت قومتیں بھی اپنا حق مانگ رہی ہیں۔

تاہم بھارت اور پاکستان دونوں کو مسلح تصادم سے ہر حال میں بچنا چاہیئے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ طارق خلیل نے کہا کہ گزشتہ 70 سالوں میں کشمیر انتفادا وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے اور یہ بات حیران کن ہے کہ کشمیری اب چین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی اب مزید مضبوط ہورہی ہے، اسے جاری رکھنے کے لیے صرف انہیں لاجسٹکس سپورٹ کی ضرورت ہے چاہے وہ بھارت کے اندر سے ہی ہو۔

پاکستان اخلاقی طور پر کشمیریوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کا پابند ہے۔ کموڈور ریٹائرڈ سدید ملک نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی دوسری حکومت اور ہندتوا نظریے کی حمایت بھارت کے زوال کا باعث بنے گی۔ تاہم بھارت طویل عرصے سے ایک جمہوری ملک رہا ہے۔

 اب یہ دیکھنا ہو گا کہ بھارتی حکومت مودی کے اقدامات کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ماضی کی بھارتی حکومتوں نے اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہی رکھا جیسے پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول اور چین کے ساتھ ایل اے سی لیکن بی جے پی کی جیت کے بعد ایسے قوانین بنائے گئے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ بھارتی قانون پوٹا پر کشمیر میں بے رحمانہ عمل کیا جارہا ہے جس سے بھارت کے عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد مجروح ہوا ہے جیسے بھارت کی جانب سے کشمیر میں مقرر کیے گئے ان کے اپنے وزرائے اعلی فاروق عبداللہ اور عبداللہ مفتی بھی اس کے خلاف بول پڑے۔

سدید ملک نے کہا کہ بھارت کے دفاعی بجٹ میں مستقل اضافہ اس کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ بھارتی آئین میں ترامیم اس صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہی ہیں۔