مقدس گائے: سزا کون تجویز کرے؟

612

سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس میں معزز عدلیہ کو اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے اس کیس میں اُس وزیر اعظم کو طلب کر لیا جس کو اپنے وزیر اعظم ہونے کی خبر مختلف ذرایعے سے ملتی ہے اور آج بھی یہی ہوا محترم وزیر اعظم نے عدالتی سوال کے جواب کے بجائے اپنے سوالات عدالت سے کرنا شروع کردیے جن میں انہوں نے عدالت سے کہا کے یہ بتائیں کے 80 ہزار افراد کس وجہ سے مارے گئے اور یہ بھی پتا لگائیں کہ ملک میں 480 ڈرون حملوں کا ذمے دار کون ہے؟ اس پر عدالت نے انہیں یاد دلایا کہ اس کا پتا لگانا آپ کا کام ہے آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ کسی وزیر اعظم کا عدالت میں پیش ہونا ملکی تاریخ کا کوئی انہونا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ہمارے وزراء اعظم عدالتوں میں پیش ہوکر نااہلی کی سزا بھگت چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث ہمارا موضوع نہیں ہاں مگر ایک بات ضرور غور طلب ہے کہ بقول وزیر اعظم ان سمیت ملک کے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں تو کہیں یہ طلبی بقول عدلیہ آپ ہمارے وزیر اعظم ہیں ان کی فیس سیونگ کے لیے تو نہیں تھی، یہ بات اس بناء پر کی جارہی ہے کہ ہم نے اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ ہمیں اپنے ہی دعووں اور وعدوں پر بھی شک کی عادت سی ہوگئی ہے، کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرتی معیشت، بری حکمرانی اور مہنگائی کے شور سے بچنے کے لیے یہ ڈراما کیا گیا۔
عدلیہ کو اگر وزیر اعظم کو طلب ہی کرنا تھا تو انہوں نے کیوں نہ انہیں 62 ،63 کے تحت نااہلی، فارن فنڈنگ کیس، وزراء کی کرپشن کے درجنوں واقعات، آٹا چینی ادویات کی چوری پر بنائی جانے والی کمیٹی کی انکوائری رپورٹس، انتخابات سے قبل مودی کی مداح سرائی اور اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر واضح موقف کے بعد کشمیر سرنڈر، ڈسکہ الیکشن میں وسیم اکرم پلس اور ان کے دو ترجمانوں عثمان ڈار اور فردوس عاشق اعوان کی ووٹ چوری کی منصوبہ بندی پر الیکشن کمیشن کی انکوائری رپورٹ، عدلیہ پر ان کی مختلف بیان بازیاں، موجودہ نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کے آئین و قانون سے ماورا اقدامات جو نیب نیازی گٹھ جوڑ کو ثابت کرچکا ہے، ایف آئی اے وغیرہ کے ذاتی استعمال، میڈیا پر حملوں، معاشی بدحالی اور مسلسل جھوٹ بولنے پر طلب کیا۔
عمران خان کے اس جملے پر کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے چیف صاحب نے اتنے پر ہی اکتفا کیا کہ آپ سانحہ اے پی ایس کے شہدا کے لواحقین کی داد رسی کریں اور یہ کہ ہم سیاسی فیصلوں میں دخل اندازی نہیں کرسکتے یہاں پر بھی طرفین کی طرف سے گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی مقدس گائے کا تعین نہ ہو سکا ہم بھی عجیب کمزور لوگ ہیں ملک کے تمام معتبر ادارے حکومت، عدلیہ اور اپوزیشن کسی میں یہ جرأت نہیں کے ایک بار وہ ہمت کر کے ملک میں موجود مقدس گائیوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کرے جبکہ ابھی حال ہی میں امریکی سینیٹرز نے دنیا کی طاقتور ترین فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی کو طلب کیا اور پھر پوری دنیا نے براہ راست ایک فوجی جرنیل کو عوام کے سامنے نہایت مودبانہ طریقے سے جواب دیتے ہوئے دیکھا جبکہ ہم آج بھی آرمی پبلک اسکول سانحہ کے اصل مجرمان جنرل راحیل شریف، جنرل ظہیر الاسلام، پرویز خٹک، جنرل ہدایت الرحمن اور چودھری نثار کا نام لینے سے ڈر رہے ہیں کیوں نہ عدالت نے یہ کہہ دیا کہ شہداء کے لواحقین اور بچوں کے والدین کے مطالبہ پر نامزد افراد کو انتہائی سخت سزا دیکر عبرت کا نشان بنادیا جائے گویا حکومت اور عدالت کے مابین میوزیکل چیئر کا گیم ایک بار پھر شروع ہو چکا ہے یا شاید ہماری معزز عدلیہ کو وہ وقت یاد آگیا ہوگا جب سنگین غداری کیس میں ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف فیصلہ کو نہ صرف کالعدم بلکہ فیصلہ دینے والی خصوصی عدالت ہی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا مقدس گائیوں کے خلاف فیصلہ دینے والے محترم جسٹس سیٹھ وقار، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم عدلیہ کی تاریخ میں قابل فخر جج کے نام سے ہمیشہ زندہ اور یاد رکھے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے عدالت عظمیٰ میں یہ بھی کہا کہ آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے، میں تو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں اگر واقعی وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ان بے شمار انکوائری رپورٹوں پر ایکشن لیں جن کے تانے بانے ان کی بیڈ گورننس اور ان کے وزراء کی غضب کرپشن کی عجب کہانیوں کے بارے میں ہیں۔ چینی چور، آٹا چور کے نعروں کا جواب دیں اور اگر ایکشن لینا ہی ہے تو ڈسکہ الیکشن کے بارے میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ کو بھی پڑھ لیں اور ایکشن لیں زیادہ معصوم نہ بنیں فارن فنڈنگ کیس میں اپنی سچائی ثابت کریں۔
عدلیہ کا وزیر اعظم کو ایسے مقدمے میں طلب کرنا جس کا فیصلہ معزز عدلیہ خود بھی کر سکتی تھی اس وجہ سے بھی ڈرامائی لگتا ہے کہ بے شمار ایسے معاملات جو زبان زد عام ہیں عدلیہ از خود نوٹس کے ذریعے وزیر اعظم کو طلب کرتی تو یہ عوام میں عدلیہ پر اعتماد کا بہترین ذریعہ بنتا جن میں وزیر اعظم کا عوام کے ساتھ کیے گئے جھوٹے وعدے مسلسل غلط بیانی لوگوں کی ذاتیات پر حملہ کرنا اور پھر بھی صادق اور امین رہنا، توشہ خانہ کیس، بلین ٹری، جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف خود مدعی بننا، نیب کے چیئرمین کو آئین اور قانون سے ماوراء مدت ملازمت میں توسیع دینا وغیرہ عدالت نہ تو محکوم ہے اور نہ ہی مجبور پھر معزز و محترم جج صاحبان اپ لوگوں کی بہت زیادہ غفلت اور معصومیت پر سوالات کا اٹھنا بلا وجہ تو نہیں۔