!!مفتی منیب مشکل میں

624

ایک سوال شدت سے کیا جارہا ہے کہ کیا ٹی ایل پی کا دھرنا ایک سیاسی پاور شو تھا؟ جس کا مقصد کالعدم کا لفظ ہٹانا، فورتھ شیڈول سے باہر نکلنا، سعد رضوی کو رہا کرانا اور اپنے کارکنان پر درج مقدمات ختم کرانا تھا تو پھر مفتی منیب کیا کہیں گے؟ امن بحال کرانا حکومت کی ذمے داری تھی تاہم سڑکیں بلاک کرنا سرکاری اور نجی املاک کی تباہی ملکی معیشت کی بربادی کاروبار کی بندش اور عوام الناس کو تکلیف دینے کو کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی مانا کہ وزراء جھوٹ بولتے اور شر پھیلانے کی کوشش کرتے رہے مگر مفتی منیب صاحب کے توسط سے کوئی ایسا معاہدہ جس میں شر پسند سزا سے بچ جائیں بھی درست نہیں۔
پورے معاہدے میں ایک بات اور واضح ہوگئی کے یہ معاہدہ حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین نہیں بلکہ اس معاہدے کو کرانے والے وہی ہیں جو سارے دھرنوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور یہ کوئی جھوٹ نہیں ان کے لفافے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیں جن کو طارق عزیز مرحوم کی زبان میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے دیکھا اور سنا۔ جب فرانسیسی سفارت خانہ بند کرانے اور فرانسیسی سفیر کے اخراج کا مطالبہ تھا ہی نہیں تو بغیر کسی وارننگ اور ڈیڈ لائن کے اچانک مارچ کا لاہور سے اسلام آباد رخ کر لینا بھی ایک سوال یہ بھی پیدا کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے تھا جن میں سر فہرست ملک میں بڑھتی مہنگائی، بیڈ گورننس، نیب چیئرمین کی دوبارہ تعیناتی، پے در پے نوٹیفکیشن، کساد بازاری، افراطِ زر، آئی ایس آئی چیف کا معاملہ حکومت اور ریاست کا ایک پیج پر ہونے کی دعویداری اور سب سے بڑھ کر پینڈورا لیکس پر سے عوام کی توجہ ہٹانا شامل تھا جس کا ثبوت ایسے اور انہی لوگوں کے ماضی کے دھرنے ہیں جہاں اپنے مقاصد حاصل کیے گئے۔
ہوا یہ کہ پنجاب حکومت کی نااہلی اور چند وزراء کی بڑھک کی بناء پر ٹائم لائن خراب ہوگئی غالب گمان یہ ہے کہ مظاہرے کو عروج پر پہنچا کر اپنے مقاصد حاصل کر لیے جاتے جن میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ڈالر کی اونچی اڑان پر انگشت نمائی، موسم سرما میں گیس کی قلت اور آئی ایم ایف معاہدے کی دست درازیوں میں بجلی کے نرخ میں اضافہ اور اسی دوران دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس بلا کر چالیس سے زاید بلوں کی منظوری شامل تھی اور یہ سارے کام ہوئے مگر تاخیر سے۔ جو بھی ہوا بقول مفتی صاحب یہ کسی کی جیت ہے نہ ہار ملک ایک فساد سے بچ گیا بے شک بچ گیا مگر ان جانوں کا کیا ہوگا جو اجل کو لبیک کہ گئیں۔ ناموس رسالت پر مرمٹنا ہر مسلمان کے لیے سعادت ہے اور یہ نصیب بھی کسی کسی کو ہوتی ہے شہید علم الدین کو یہ سعادت ان ہزاروں اللہ والوں کی موجودگی میں نصیب ہوئی جن کا ہمہ وقت کا وظیفہ عشق رسول ہوتا تھا مگر سعادت ملی تو بقول علامہ اقبال ترکھان کے بیٹے کو، یہ نصیبے کی بات ہے آج کے بے شمار علماء ہزار کوششوں کے باوجود اس اعزاز کے لائق ہو نہیں سکتے وقت کر گزرنے کا نام ہے نہ کہ سوچنے کا کہ ہم کریں گے کامیابی انہیں ہی ملتی ہے جو انجام سے بے پروا کر گزرتے ہیں۔ یہ سوال بھی ہے کہ ان پولیس والوں کی موت کا ذمے دار کون ہے جو اپنے فرض کی ادائیگی میں مارے گئے اسلام آباد کی حکومت یا راولپنڈی کی ریاست؟
اگر ٹی ایل پی اپنے مطالبے میں سچی ہوتی تو مقصد پہلے دھرنے میں حاصل کر لیتی تاہم ایسا نہ ہونا یا نہ کرنے دینا اور وقت بے وقت اس مطالبے کا سہارا لیکر ریلیاں اور دھرنے کرانا کیا اس بات کی دلیل نہیں؟ اب جبکہ نامعلوم معاہدے کے ظاہری نکات میں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کر لیا جائے گا اور یہی نہیں آئندہ انتخابات میں وہ موجودہ حکومت کی حلیف بھی ہو سکتی ہے، بلی کا تھیلے سے باہر آجانے کا ثبوت ہے۔ بقول ترجمان مسلم لیگ نواز راولپنڈی کی ریاست کو نظر آگیا ہے کہ اس جماعت کو موجودہ حکمران جماعت کا حلیف بنا کر نواز لیگ کو آئندہ انتخابات میں پس دیوار کیا جا سکتا ہے جس کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو گیٹ نمبر چار کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ مفتی صاحب انتہائی واجب الاحترام سہی مگر میری دانست میں وہ بھی مشکل میں آگئے ہیں یہ سوالات ان ہی سے ہیں ان ہی کو جواب دینا ہوگا۔