بد عہدی اور مکر کی خوفناک منزل

994

سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت کی بعض معاملات میں ایمانی کمزوری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس پر نفاق تک کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ بات معاذ اللہ راقم اپنی طرف سے نہیں بلکہ رسول اللہؐ کی حدیث کی رو سے کہہ رہا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب عہد کرے تو اس کی پاسداری نہ کرے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ سود کی شناعت اور حرمت کے بارے میں قرآن و حدیث میں کتنے سخت الفاظ آئے ہیں، ہماری عدالتیں اور حکومت ابھی تک یہی تعین کرنے میں لگی ہوئی ہیں کہ سود کی تعریف کیا ہے؟ اور تعریف کی اس بحث کے درمیان حکومت زورو شور کے ساتھ نئی نئی سودی اسکیمیں جاری کر رہی ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور کامیاب نوجوان پروگرام کی صورت میں سود کا کاروبار بڑھ چڑھ کر کر فروغ پا رہا ہے اور عوام کو بھی اللہ اور رسولؐ کی کسی تنبیہ کا کوئی احساس نہیں۔ بات بڑھتے بڑھتے اب اس مقام پر آ چکی ہے کہ اب ہم بحیثیت قوم اپنی آخرت کی تمام جمع پونجی کو صفر سے ضرب دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ اب ہم نبی کریمؐ کی عزت اور ناموس حوالے سے معاملات بھی نہایت لاپروائی مجرمانہ غفلت، غیر سنجیدگی اور بے ایمانی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ اور حد یہ ہے یہ سب کرنے کے باوجود ہم نبیؐ سے اپنی محبت کا اظہار کرنے میں انتہائی جذباتی نعرہ بازی بھی نہیں بھولتے۔
انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت نے جس طرح ٹی ایل پی سے مذاکرات کو اور پھر مذاکرات کے بعد اس انتہائی حساس اور سنجیدہ معاملہ کو پارلیمنٹ میں اب سے چند مہینے پہلے ہینڈل کیا اور پھر اجلاس میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی جو شرمناک حرکات و کیفیات سامنے آئیں اس پر چند لمحے بھی اگر دِینی اور ایمانی نقطہ نظر سے غور اور اخروی نتائج کی فکر کی جائے تو جسم لرز اٹھتا ہے۔ قرآن تو مسلمانوں سے یہ کہتا ہے کہ اگر تمہاری آواز بھی رسول اللہؐ کی آواز سے ذرا اونچی ہو جائے گی تو تمہارے سارے اعمال ضائع کر دیے جائیں گے اور تمہیں اس کا علم بھی نہ ہوگا۔ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں‘‘۔ جب کہ یہاں مغربی دنیا کا خوف اور ان سے ملنے والی مراعات کا پاس اس حد تک ہے کہ ٹی ایل پی سے ہونے والے معاہدے کو حکومت سرکاری سطح پر پارلیمنٹ پیش کرنے سے بھی کتراتی رہی ہے۔ وزیراعظم کو اتنا احساس نہیں ہوا کہ وہ پارلیمنٹ میں ہی آکر معاملے کی اہمیت کو واضح کر دیتے۔ کیا اس ملک میں آقائے دو جہاں کی عزت و ناموس کے حوالے سے سنجیدہ اور فکرمند صرف ٹی ایل پی ہی ہے؟ کیا یہ پورے پاکستان کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ کیا ہم لوگ اتنے بے حس اور بے ایمان ہوگئے ہیں۔ کیا ہمارے دلوں پر گناہوں کے غلاف اتنے دبیز ہوگئے ہیں کہ اس معاملہ کو ذمے داری اور سلیقے کے ساتھ حل کر سکیں۔
غم کی بات یہ بھی ہے کہ نومبر 2020 میں خادم حسین رضوی سے ہونے والے معاہدے سے لے کر ان کے بیٹے سعد رضوی صاحب کی گرفتاری تک اور گرفتاری سے لیکر پچھلے چند دنوں تک پوری پاکستانی قوم الاّ ماشاء اللہ سو تی رہی۔ کسی کو کوئی پروا نہیں تھی کہ کیا معاہدہ ہوا یا اس کی ڈیڈ لائن کیا تھی۔ اکتوبر اور نومبر 2020 کے حالات پر جب راقم نے دوبارہ نگاہ ڈالی تو یاد آیا کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے ملعون فرانسیسی صدر کی گستاخانہ حرکت کیخلاف ایک قرارداد بھی منظور کی تھی جس میں حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ او آئی سی کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل بنائے، حکومت او آئی سی سے کہے کہ سب ممالک مل کر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور پاکستان کے سفیر کو فرانس سے واپس بلایا جائے۔ راقم کا گمان ہے کہ سفیر کو فرانس سے واپس بلا لینے کی بات میں کوئی چال ہی تھی کیونکہ ایک تو پاکستان کا کوئی سفیر فرانس میں تھا ہی نہیں اور دوسرے یہ کہ اس بات کا منطقی تقاضا یہ بھی بنتا تھا کہ پاکستان سے فرانس کے سفیر کو بھی ملک بدر کر دیا جائے۔ لیکن یہ مطالبہ اس قرارداد میں موجود نہیں تھا جو 25 اکتوبر 2020 کو پارلیمنٹ سے منظور ہوئی۔
یہ بات تو علماء کرام ہی تفصیل سے بتا سکتے ہیں کہ جس ملک نے سرکاری سطح پر رسول اللہؐ کی شان میں گستاخی کی ہو اور گستاخانہ تصاویر کو حکومتی عمارتوں پر پروجیکٹ کیا گیا ہو اس ملک سے تعلقات مختلف حالات میں کس طرح کے رکھے جاسکتے ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان یورپی تعلقات اور تجارت پر بہت انحصار کرتا ہے لیکن حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سفارت کاروں، معیشت دانوں، تاجروں اور علماء کرام کوکسی فورم پر جمع کرکے ان سے مشورہ لیتی، حکمت عملی ترتیب دیتی۔ اس انتہائی جذباتی اور ایمانی معاملے میں اپنی فکر کا مظاہرہ کرتی تو ضرور کوئی نہ کوئی بات سمجھ میں آتی۔ اللہ تعالیٰ دل و دماغ کی گرہیں کھولتا، بھوک اور افلاس کے خوف کو دور کرتا اور حکمت اور فرقان عطا فرماتا۔ لیکن حکومت نے بے دلی سے اور محض مشکل وقت ٹالنے کے لیے نہ صرف جھوٹا وعدہ کیا بلکہ 2021 غالباً فروری میں ٹی ایل پی سے مزید وقت مانگ لیا۔ جب بے عملی اور دھوکا کھل کر سامنے آنے لگا تو حکومت نے سعد رضوی کو گرفتار کر لیا، تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیدیا اور اس کے بعد ملک بھر میں دھرنے اور طرفین کی جانب سے اشتعال انگیزی اور جلاؤ گھیراؤ کا معاملہ شروع ہوا۔ حکومت ہٹ ڈھرمی، دھوکے بازی پر اتری رہی۔ پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی اکثریت نے اس معاملے کو صرف ایک کالعدم جماعت کے ریاست سے ٹکرائو کے ’’گناہ کبیرہ‘‘، امن و امان اور جان و مال کے مسائل کا رنگ دیتا رہا جبکہ اس حساس معاملے پر حکومت کی بد عہدی، جھوٹ و مکر، دغا بازی کے جرم عظیم کی طرف بہت کم لوگوں نے توجہ کی۔
وزیراعظم فرماتے ہیں کہ سفیر کو نکالنے سے فرانس کا کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ پاکستان پر غربت و افلاس اور بھوک اور خوف کے مسائل جنم لے لیں گے۔ ملک جو پتا نہیں کون سی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تباہی سے دوچار ہوجائے گا۔ اب اس بات پر کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ ہم رسول اللہؐ کی عزت و حرمت اور ان کی ذات سے محبت کے معاملے میں جو چیزیں ہمارے بس میں ہے وہ بھی کرنے سے کترا رہے ہیں۔ فرانس سے جنگ کرنے کی کون بات کر رہا ہے بلکہ بات تو یہ ہو رہی ہے کہ ایک ایسے ملک نے جس میں آقائے دوجہاں محمد مصطفیؐ کی شان میں سرکاری سطح پر گستاخی کی ہے اس سے کم ازکم اپنے سفارتی تعلقات نچلی سطح پر لے آئیں۔ امریکا نے تین سال بعد پاکستان میں اپنا سفیر مقرر کیا تو کون سی قیامت برپا ہوئی۔ دوسرے اسلامی ممالک کیا کر رہے ہیں کیا کہہ رہے ہیں اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم سب کو بشمول عمران خان کو اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اور ہمیں اپنے حیثیت و اختیار کے مطابق سوالوں کے جوابات اللہ ذولجلال کو دینے ہیں۔
مغرب کو اپنے آزادی اظہار رائے کی روایت سے اتنی محبت ہے کہ یورپی پارلیمنٹ آج ہمیں نوٹس دے رہی ہے اور ہمیں اتنی بھی شرم نہیں کہ ہم فرانس کے سفیر کو نکالنے کے لیے کسی سنجیدہ بحث اور حکمت عملی کا آغاز کریں جس میں ایک بات تو طے ہو کہ ہم اس شخص سے، اس ملک سے دوستی نہیں رکھ سکتے جو ہمارے بار بار سمجھانے التجا کرنے، درخواست کرنے کے باوجود بھی حکومتی سطح پر اپنی کمینگی سے باز نہیں آرہا۔
اگر یورپی یونین فرانس کا اس معاملے میں ساتھ دیتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ اس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ انڈسٹری پر پڑے گا تو کیا حکومت نے ٹیکسٹائل کے نمائندوں سے بات چیت کی؟ ان سے مذاکرات کیے ؟ ان کے جذبات اور حالات معلوم کرنے کی کوشش کی؟۔
پاکستان کی یورپ کو برامدات آٹھ سے نو بلین ڈالر کی ہے جس کی غالب اکثریت ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہے۔ تو کیا پاکستان ایک ایسا فنڈ قائم نہیں کر سکتا جس کے ذریعے صرف ان انڈسٹریز کی مدد کی جائے جن کے یورپی یونین سے تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے کاروبار اور روزگار متاثر ہوں۔ پاکستانی قوم میں اتنا جذبہِ عشق محمدیؐ ہے کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ قوم کو گھاس کھا کر ایٹم بم کا مشورہ دیا جاسکتا ہے تو کیا اس معاملے کا حق کیا ہے؟
اگر یورپین یونین فرانس کے لیے اس حد تک جاتی ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات اور تجارت ختم کردے تو پاکستان کے پاس بھی بہت سارے آپشنز ہیں جس کے لیے کچھ نہیں مگر جذبہ ایمان چاہیے۔ تجارت کی نئی منڈیاں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس حوالے سے کچھ باتیں پوری دنیا کو پریشان کرسکتی ہیں۔ کیا ایران ختم ہو گیا؟ کیا شمالی کوریا تباہ و برباد ہو گیا؟ کیا کیوبا اتنے عرصے امریکا کے بالکل قریب رہنے کے باوجود نیست و نابود ہوگیا؟ ان سب ملکوں نے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جذبے سے کام کرتے ہوئے اپنی ملک و قوم مزید مضبوط بنا دیا۔ پاکستان تو الحمدللہ ایسے خطے میں واقع ہے جہاں اس کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ مواقع ہی مواقع ہیں۔ اللہ پر حقیقی ایمان درکار ہے۔ اگر مسائل آتے بھی ہیں ہیں تو اس کا ہم پامردی اور ایمان کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کیا ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفا کرنے پر اللہ تعالیٰ خیر و برکت کے دروازے کھول دے گا اور وہاں سے مدد آئے گی جہاں سے ہمارا گمان بھی نہیں ہوگا۔