بنگلادیش: دستور کو سیکولربنانے کی بھارتی سازش

471

بنگلادیش اُس دن بھی اسلام کا قلعہ رہے گا جس دن سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو رہا ہوگا۔ ڈھاکا میں ایک پرُ ہجوم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی اسکالر ڈاکٹر عنایت ا للہ عباسی نے اعلان کیا کہ بنگلادیش کے دستور کو سیکولر بنانے کی ہر ساش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عنایت ا للہ بنگلادیش کے وزیرِ اطلاعات مراد حسین کے اُس بیان کے خلاف جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے جس میں مراد حسین کا کہنا تھا کہ 1972ء میں بنگلادیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان نے سیکولر دستور بنایا تھا اس لیے اب بنگلادیش حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے ملک کا دستور دوبارہ سیکو لر بنا دیا جائے گا۔ لیکن اس سے قبل بنگلادیش کو سیکولر ملک بنانے کے لیے بھارتی سازش کے تحت الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ہندوؤں کے مذہبی تہوار ’’درگا پوجا‘‘ کے دوران قرآن پاک کی بے حرمتی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بنگلادیش میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔
گزشتہ ہفتے بنگلادیش کے مشرقی ضلع کمیلا میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار کے دوران ایک شخص کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ اس واقعے کے بعد مشتعل افراد نے بنگلادیش کے مختلف شہروں میں مندروں پر حملے کیے اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں دو ہندوؤں سمیت 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ بنگلادیشی میڈیا کا کہنا ہے کہ مشتعل افراد نے رنگ پور کے شہر پیر گنج میں ہندوؤں کے 20 کے قریب مکانات کو آگ لگا دی۔ دوسری جانب ہندو کمیونٹی رہنما گوبندا پرامانک نے اے ایف پی کو بتایا کہ بنگلادیش کے مختلف شہروں میں ہونے والے حملوں میں 150 کے قریب ہندو زخمی ہوئے جبکہ 80 کے قریب مندروں پر حملے ہوئے۔ لیکن اس میں کتنا سچ اور کس قدر جھوٹ ہے اور کو حکومت ِ بنگلادیش سمجھنے سے قاصر ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ہندو کی لاش مندر کے قریب سے ملی، اور 4 مسلمان پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد بنگلادیش کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل کر دی گئی اور سیکورٹی بڑھا دی گئی۔
بنگلادیش کی مجموعی آبادی16 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور وہاں ہندو مجموعی آبادی کا 10 فی صد ہیں۔ اس میں وہ ہندو بھی شامل ہیں جن کوقیام ِ بنگلا دیش کے بعد بھارت سے شیخ مجیب الرحمان نے خصوصی اجازت اور بڑے عہدے دے کر بنگلادیش میں بسایا تھا ان میں سے بہت بڑی تعداد میں بنگلادیش کی بیورو کریسی، عدالتوں میں بھی موجود ہے اور بنگلادیش کی عدالت عظمیٰ بھی بھارتی ہندؤ ججوں سے بھری پڑی ہے۔ اس پوری صورتحال میں بنگلادیشی حکومت کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے کہ ملک میں بھاری اکثریت میں موجود مسلمانوں کے مذہبی عقائد کی حفاظت کر سکے۔ اس برعکس بھارت قیام بنگلادیش سے اس پر اپنی بالادستی برقر ار رکھنا چاہتا ہے۔
وزیر اعظم بنگلادیش شیخ حسینہ نے فرقہ وارانہ فساد پھیلانے والوں کے سخت خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، اور لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حقائق کی جانچ کے بغیر سوشل میڈیا پر
جا رہی خبروں پر یقین نہ کریں۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ نے وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو ہدایت کی ہے کہ تشدد پھیلانے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں، شیخ حسینہ نے اعلان کیا ہے کہ تشدد سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کی جائے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے رہنما اور رکن اسمبلی سبرامنیم سوامی نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہندوؤں پر تشدد بند نہیں ہوتا تو میں سفارش کروں گا کہ بھارتی حکومت بنگلادیش پر حملہ کرے اور بنگلادیش کو اپنے قبضے میں لے۔ بھارت میں جب سے مودی سرکار آئی تب سے بھارت کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات انتہائی خراب ہیں، چین سے اس کا سرحدی تنازع چل رہا ہے، جبکہ پاکستان اور نیپال سے تعلقات پہلے ہی اچھے نہیں اور اب اس نے بنگلادیش کو بھی جھوٹی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ بنگلادیش میں ہندوؤں پر حملے کے خلاف بھارت میں بھی احتجاج شروع ہو گیا ہے وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے کارکنوں نے حیدرآباد میں احتجاج کے دوران کا حسینہ واجد کا پتلا جلایا اور بنگلادیش کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
مارچ 2021ء کو ڈھاکا میں بنگلادیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ بنگلادیش کی آزادی کی جنگ کے وقت ’میری عمر 20، 22 سال رہی ہو گی، میں نے گرفتاری بھی دی تھی اور جیل جانے کا موقع بھی آیا تھا‘۔ بنگلادیش کی آزادی کی جتنی تڑپ اِدھر تھی اتنی ہی اْدھر بھی تھی۔ تاہم بھارتی وزیرِ اعظم نے یہ وضاحت نہیں دی کہ انہیں کس نے گرفتار کیا تھا اور کیوں۔ یہ وہ جھوٹ تھا جس کو کہہ کر وہ بنگلادیش کی حکومت کو اس بات پر مجبور کر رہے تھے کہ بھارت بنگلادیش کا دوست ہے لیکن اب بھارت بنگلادیش کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ نریندر مودی نے 1971 کی بات کی ہے جب وہ 21 برس کے تھے۔ اس وقت پاکستان کے مشرقی حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی تھی جسے دبانے کے لیے پاکستانی فوجی نے 26 مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کے بعد بڑی تعداد میں بنگالی بھارت میں پناہ لینے کے لیے داخل ہوئے، جس کے بعد 22 نومبر کو بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی۔ 16 دسمبر کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ شاید اس کے بعد انہوں نے کسی مظاہرے میں حصہ لیا جس کے بعد ’گرفتاری کی نوبت‘ آ گئی، مگر یہ بات وضاحت طلب ہے کہ بھارتی حکومت بنگلادیش کی آزادی کے لیے ہونے والے مظاہرین کو کیوں گرفتار کرنے لگی؟
بنگلادیش کے مشرقی ضلع کمیلا اور رنگ پور کے شہر پیر گنج کے دریائی ساحلی علاقوں میں ہند و قیام ِ پاکستان اور قیام بنگلادیش سے قبل سے آباد ہیں اور یہاں موجود آدم جی جوٹ ملز اور دیگر صنعتی اداروں میں بہت بڑی تعدا د میں ہندو ملازمت بھی کرتے ہیں لیکن مودی کے اقتدار میں آتے ہی بنگلادیشی ہندؤں نے ان علاقوں میں فساد برپا کر رکھا اور اس فساد کو حکومتی چھتری بھی میسر ہے۔ لیکن بنگلادیشی عوام کی اسلام سے محبت نے ہندوؤں کی بلادستی کو مزید علاقوں میں پھیلنے سے روک رکھا ہے۔ یہ سب کچھ بھارتی حکومت پسند نہیں ہے اور اسی لیے وہ وقفہ وقفہ سے ان علاقوں میں فساد کراتا رہتا ہے۔ جس بچنے کے لیے حسینہ واجد کو ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔