جاسوسی پر مودی سرکار کے خلاف عدالتی تفتیش کا اعلان

180

نئی دہلی (انٹرنیشنل دیسک) بھارتی عدالت عظمیٰ نے نے اسرائیلی سافٹ ویئر کے ذریعے جاسوسی کے کیس میں مودی سرکار کے خلاف تفتیش کرانے کا اعلان کر د۔ عدالت کا کہنا ہے کہ سیکورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہر بار حکومت کو جانے نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے اسرائیلی سافٹ ویئر کی مدد سے اپنے سیاسی مخالفین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی مبینہ جاسوسی کے معاملے کی چھان بین کرے گی۔ ریٹائرڈ جج اس کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس کی رپورٹ رواں سال کے اختتام تک متوقع ہے۔ عدالت عظمی نے یہ قدم صحافیوں، حزب اختلاف کے سیاست دانوں اور کارکنان کی جانب سے دائر کردہ ایک اپیل کے رد عمل میں اٹھایا ہے۔ گلوبل میڈیا کنسورشیئم کی جانب سے جولائی میں سامنے آنے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسرائیلی ساختہ عسکری نوعیت کے سافٹ ویئر پیگیسس کو استعمال کرتے ہوئے 50ممالک میں جاسوسی کی گئی، جن میں سیاسی مخالفین، صحافی اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن شامل ہیں۔ بھارت بھی اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل تھا۔ رپورٹ کے اجرا کے بعد تہلکہ مچ گیا اور سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی کا موقف سامنے آیا کہ وہ یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں کو فروخت کرتی ہے اور اس کا استعمال صرف دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جاتا ہے۔ کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ اسے کسی صارف یا متاثرہ شخص کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں۔ بھارتی حکومت نے ایسی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے جاسوسی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ رپورٹ کے ناقدین نے بھی کمپنی کی وضاحت کو غلط بیانی پر مبنی قرار دیا اور ایسے شواہد پیش کیے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ این ایس او نامی کمپنی متاثرین کا ڈیٹا خود محفوظ رکھتی ہے۔ ناقدین نے مزید کہا کہ پیگیسس کا مسلسل اور وسیع پیمانے پر استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نجی سطح پر جاسوسی کتنے غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ سافٹ ویئر کسی بھی شخص کے اسمارٹ فون میں داخل ہونے کے بعد تمام تر ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ حتی کہ کیمرا اور مائیکرو فون بھی اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔