کشمیر کی صحافت نرغے میں

440

5 ؍ اگست 2019ء کے بعد خصوصاً کشمیر میں صحافت کے لیے زمین تنگ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ صحافی خوف کا شکار ہیں اور صحافتی اداروں نے اپنے اوپر خوف کو مسلط کر لیا ہے۔ کوئی صحافی کسی خبر کو عوام کے سامنے لانے سے پہلے اس کے نتائج پر ہزار بار سوچنے پہ مجبور ہے۔ آئے روز صحافیوں کے گھروں پہ چھاپے اور اس پیشے سے وابستہ افراد کی پوچھ گچھ کے سبب کشمیر میں صحافیوں کو ذہنی کوفت کا سامنا ہے۔ بہت سارے اُبھرتے ہوئے صحافی تو اب اس میدان میں آنے کے لیے تذبذب کا شکار ہیں کہ کیا اس پیشے کو اختیار کیا جائے یا نہیں؟ گزشتہ دو سال میں چالیس سے زائد صحافیوں کو سیکورٹی ایجنسیوں نے طلب کیا اور چند کے گھروں پہ چھاپے مارے گئے بلکہ ان کو اپنے سماجی تعلقات اور سوشل میڈیا کوظاہر کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق کشمیر پولیس نے باضابطہ صحافیوں کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے یہ صحافی ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی کشمیر کے چار صحافیوں کے گھروں پہ پولیس نے چھاپے مارے اُن کے لیپ ٹاپ اور موبائل فونز ضبط کر لیے ہیں جن میں ہلال میر، شاہ عباس، اظہر قادری اور شوکت موٹا شامل ہیں۔ اس چھاپے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی صحافیوں نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں صحافیوں کے گھروں پہ چھاپے کی مذمت کی گئی۔ اس کے جواب میں آئی جی پولیس وجے کمار نے ایک سرکاری بیان میں صحافتی انجمنوں کو خبردار کیا کہ وہ غیر ضروری مداخلت نہ کریں۔ وجے کمار کا مزید کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز صحافیوں کو ہراساں نہیں کر رہیں بلکہ ایک حساس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہیں اور صحافیوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی حساس تحقیقات میں صحافیوں کو رخنہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
دی وائر کے ایک مضمون کے مطابق 43؍سے زائد افراد ایسے ہیں جو سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے منفی رپورٹ آنے کے بعد بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ ان 43؍افراد میں سماجی کارکن، طلبہ اور تقریباً 22؍کا تعلق صحافتی برادری سے ہے۔ اگست 2019 کے بعد کشمیر کے صحافیوں میں گوہر گیلانی اور ایک طالب علم زاہد رفیق کو بیرون ملک جانے سے دہلی کے ہوائی اڈے سے انٹیلی جنس بیرو کی درخواست پر روک دیا گیا تھا واضح رہے گوہر گیلانی کو میڈیا تنظیم ڈوئچے ویلے (DW) میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے جرمنی جانا تھا۔ اسی طرح سے زاہد رفیق کو تعلیم کے سلسلے میں باہر جانے سے روک دیا گیا۔ گزشتہ سال اپریل میں کشمیر پولیس نے آزاد فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا اور گوہر گیلانی کے خلاف ملک مخالف سوشل میڈیا پوسٹوں کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت کیس درج کیا تھا اسی طرح سے درجنوں صحافیوں کو قد و بند سے بھی گزرنا پڑا جن میں ’’آصف سلطان‘‘ نامی صحافی گزشتہ تین سال سے جیل میں قید ہیں اسی طرح سے قاضی شبلی کو آٹھ ماہ تک قید کیا گیا، عرفان ملک کو کچھ وقت کے لیے قید کیا گیا گوہر وانی کو بھی قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑیں ایک اور صحافی کامران یوسف کو این آئی نے گرفتار کر کے قید کیا تھا جو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیے گئے تھے یعنی ایسے بہت سارے نام ہیں جن صحافیوں کو زندان کی ہوا کھانی پڑی ہے جو آج بھی اسی قید و بند کے خوف کا شکار ہو کے کشمیر میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اس ساری نازک اور پیچیدہ صورتحال کے دوران جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پریس کونسل آف انڈیا کو ایک خط ارسال کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’کشمیر میں صحافیوں کو بغیر کسی جواز کے ہراساں کرنا اب معمول بن گیا ہے۔ اور ان کے گھروں پہ چھاپے مار کر اور ایک معمولی ٹوئٹ کی بنا پہ اُن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ سی آئی ڈی کے ذریعے صحافیوں اور اُن کے خاندان کے اراکین کی بیک گراونڈ معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ چند سینئر صحافیوں کی رہائش گاہوں سے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور پاسپورٹ وغیرہ ضبط کرنا بھی شامل ہے۔ اس خط میں انہوں نے جموں کشمیر حکام کے ہاتھوں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی مثالیں درج کیں ساتھ ہی انسداد دہشت گردی کے سخت قانون (UAPA) ایکٹ کے تحت صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کا بھی ذکرکیا ہے۔ اس خط کے جواب میں پریس کونسل آف انڈیا نے تین رُکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کشمیر کے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے الزمات کی تحقیقات کرے گی۔ اس کمیٹی میں نیو انڈین ایکسپریس کے صحافی ’’گُربیر سنگھ‘‘، ڈینیک بھاسکر کے کنوینر اور گروپ ایڈیٹر ’’پرکاش دھوبے‘‘ اور جن مورچہ کے ایڈیٹر ’’ڈاکٹر سمن گپتا‘‘ شامل ہوں گے۔
چند تجزیہ نگاروں اور سے پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے اس خط کے جواب میں یہ قدم کشمیر کے صحافیوں کے لیے حوصلہ افزا قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم کچھ اس قدم کو ماضی کی طرح وقت کا زیاں مانتے ہیں کشمیر کے ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ ’’کسی بھی ملک کے لیے آزاد صحافت بہت ضروری ہوتی ہے جب کسی صحافی کو آزدی کے ساتھ لکھنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ احساس ذمے داری کا مظاہرہ بھی کرتا ہے کیوں کہ وہ یہ جانتا ہے میں جو بھی لکھوں یا کہوں گا اس کے اچھے یا بُرے نتائج بھی نکلیں گے۔ پڑھا لکھا صحافی کبھی یہ کوشش نہیں کرے گا کہ اُس کی صحافت سے کسی کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ جب کوئی صحافی سچائی لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کو سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے تنگ کیا جاتا ہے اس صحافی کے کام کرنے کا طریقہ متاثر ہو جاتا ہے۔ بلکہ کشمیر میں حالات اس حد تک
متاثر ہوگئے ہیں کہ ابھی تک کسی سرکاری ایجنسی نے یہاں کے اخبارات کو یہ نہیں کہا ہے کہ کون سی خبر چلانی ہے اور کون سی نہیں لیکن صحافیوں کو جب سے تنگ وطلب کیا جارہا ہے صحافتی اداروں کے مالکان ایک خوف کا شکار ہو گئے ہیں نتیجتاً صحافتی ادارے خود بخود دبائو کا شکار ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے اپنے اوپر آپ ہی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ جس طرح کی آزاد صحافت کشمیر میں ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو رہی ہے بلکہ اگر کوئی کوشش بھی کرتا ہے بے باکی سے لکھنے کی اُس کو بھی یہ ڈر ستاتا ہے کہ نجانے اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ پریس کونسل آف انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے متعلق ان کا کہناتھا کہ یہ کونسل حکومت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے کیوں کہ اس کے پاس وہ طاقت نہیں ہے جو حکومت کو اپنی بات منوانے کے لیے مجبور کرے یا حکومت پر اثر انداز ہو سکے۔ کشمیر میں آزاد صحافت کو ایک ہی چیز زندہ رکھ سکتی ہے وہ ہے صحافیوں کا اتحاد۔ اس طرح کی کمیٹیاں پہلے بھی بنی ہیں لیکن وہ کوئی خاص تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں‘‘۔ ایک صحافی نے بتایا کہ ’’پریس کونسل آف انڈیا نے پہلے بھی یہاں اس طرح کے لوگ اور کمیٹیاں تشکیل دی ہیں لیکن اُن کے دوروں اور اس طرح کے بیانات سے کشمیر میں صحافیوں پہ عتاب کم نہیں ہوئے اور نہ ہی خاطر خواہ نتائج سامنے آئے۔ پریس کونسل آف انڈیا کی اس طرح کی بے بسی اور صحافیوں کے لیے کچھ کرنے میں کامیابی نہ ملنا خود ہی قابل تشویش امر کے ساتھ ساتھ اُن کی بے بسی کو بھی ظاہر کرتی ہے‘‘۔
مجموعی طور پہ صحافیوں میں خوف و تشویش پائی جا رہی ہے۔ کھل کے بات کرنے سے بھی صحافی کترا رہے ہیں بلکہ غیر جانبداری سے اپنی رائے دینے میں بھی ہچکچا رہے ہیں۔ ظاہری طور حکومت کی اور سے کوئی قدغن یا سنسر شپ صحافتی اداروں پہ عائد نہیں کی گئی ہے لیکن صحافیوں کو انفرادی سطح پہ جو تنگ اور آزادی سے لکھنے کا حق چھننے کی کوشش کی جا رہی ہے اُس کے سبب صحافتی اداروں کے لیے ایک خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے جس کے سبب وہ حقائق کو سامنے لانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ کشمیر ہی میں ان صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بیرون ممالک جانا چاہتے ہیں یا جو بین الاقوامی صحافتی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اب اُن کو بھی کشمیر سے باہر جانے سے روکا جا رہا ہے۔ صورتحال انتہائی مایوس کُن ہے تاہم مجموعی طور پہ کشمیر میں صحافیوں کے لیے پیچیدہ صورتحال کے بیچ صحافت کشمیر میں بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اور یہ جنگ ایک دن جیتنے میں کامیاب بھی ہو سکتی ہے اگر صحافی اتحاد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔