پیر تسمہ پا

576

وزیراعظم عمران خان جب عشرت گہہ خسرو کے مکیں بنے تو احساس ہوا کہ یہاںکی پانچ سالہ رہائش بہت کم ہے اتنے عرصے میں تو عشرت کدا آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بھی نہیں بن سکتا سو، موصوف نے بیان کی توپ چلادی کہ پانچ سالہ عرصہ بہت مختصر ہوتا ہے اتنی کم مدت میں ملک کی توکجا آدمی اپنی خدمت بھی نہیں کرسکتا حالانکہ موصوف اقتدار میں آنے سے قبل دعوے کیا کرتے تھے کہ اقتدارکی مسند پر سوار ہو کر سو دنوں میں ملک و قوم کی قسمت بدل دیں گے۔ موصوف یہ دعویٰ بھی فرمایا کرتے تھے کہ پختون خوا کوکوہ قاف بناچکے ہیں مگر وہ ملک و قوم کی قسمت بدلنے کے بجائے جی حضوریوں کی قسمت سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں اور اب ان کے ایک وفادار نے انکشاف کیا ہے کہ تین سال تو آئی ایم ایف سے سودے بازی میں گزرجاتے ہیں اور باقی دو برس الیکشن جیتنے کے حربوں میں گزرجاتے ہیں گویا موصوف نے بھی اپنے پیرومرشد کے فرمان کو دہرایا ہے کہ حکومت کے لیے پانچ سال کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے یہ کیسی احمقانہ بات ہے کہ پانچ سال کا عرصہ اتنا کم ہے کہ حکومت کچھ نہیں کرسکتی گویا تحریک انصاف یہ چاہتی ہے کہ اسے پانچ سال کا حق سونپ دیا جائے تاکہ وہ سوپ کے بجائے عوام کا خون پیتی رہے یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ مقتدر طبقہ آفاقی اصولوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جو عوام کو سہولتیں اور مراعات فراہم کرتی ہے اور جو حکومت اپنے وفاداروں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے ناکام ترین حکومت ہوتی ہے۔
قوم ابھی تک نہیں بھولی کہ جنرل ایوب خان کے دور حکومت بیس تیس روپے فروخت ہونے والا لہسن اچانک دوسو پچاس روپے کلو ہوگیا تھا مگر جنرل ایوب خان کی کارگردگی اور عوام فلاح وبہبود کے جذبے سے اس مہنگائی پرقابو پالیا اور لہسن پہلے والی قیمت پر فروخت ہونے لگا جنرل مشرف کے دور میں بناسپتی گھی کی قیمت ساٹھ روپے فی کلو تھی جو 62روپے فی کلو ہوگئی مگر جنرل مشرف نے اس مہنگائی کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور گھی کی قیمت 60روپے فی کلو ہوگئی جب سے عمران خان وزات عظمیٰ کی مسند پر سوار ہوئے ہیں یوں لگتا ہے جیسے وہ عوام کی گردن پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار ہوگئے ہیں جب بھی مہنگائی ہوتی ہے عمران خان کمیٹی کمیٹی کھیلنے لگتے ہیں اس معاملے میں انہیں کوئی الزام دینے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ ایک کھلاڑی کی سوچ کھیل سے آگے کیسے بڑھ سکتی۔
مہنگائی کی دیوی ساڑھی اُترنے والی کسی ناری کی طرح آگے پیچھے ہاتھ رکھے سرپٹ دوڑ رہی ہے اور حکمران طبقہ اس منظر سے لطف اندوز ہورہا ہے اگر دیانتداری سے مہنگائی کا تجزیہ کیا جائے تویہ حقیقت منکشف ہوگی کہ ساڑھی تو حکومت کی اُتر چکی ہے اور وہ اپنی عریانی کو چھپانے کے لیے سابق حکومتوں کو ذمے دار ٹھیرا رہی ہے سوال یہ ہے کہ سابق حکومتوں نے قرض لیا تو انہوں نے ملکی ترقی اور عوامی سہولت کے لیے کام بھی کیے ہیں تحریک انصاف نے قوم پر قرضوں کا اتنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ اس کی کمر سیدھی کرنے میں آنے والی حکومتوںکی اپنی کمرخمیدہ ہوجائے گی اس کے باوجود تحریک انصاف کے رہنما، ورکر اور اس کے حامی وزیراعظم کی شان میں قصیدے پر قصیدے پڑھ رہے ہیں کہ یہی ان کی روزی کا وسیلہ ہے اور روزی کا وسیلہ میڈم روزی سے بھی زیادہ دلکش اور اہم ہوتا ہے دوہزار اٹھارہ میں گردش قرضہ 1152ارب روپے تھا۔ دوہزار اکیس میں یہ قرضہ 2280ارب ہوچکا ہے مگر عمران خان اپنی اور اپنے وزرا کی کارگردگی سے زیادہ قصیدوں کو اہمیت دے رہے ہیں مگر کب تک بالآخر کبھی نہ کبھی بکرے کی ماں چھری کے نیچے آئے گی۔
شبلی سرفراز کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا دماغ خراب ہوگیا ہے دماغ خراب ہوجائے تو اس کے تندرست ہونے کا امکان ہوتا ہے مگر جب دماغ چل جائے پھر اسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے ہم نے بارہا انہیں کالموں میں گزارش کی ہے کہ تحریک پاکستان کے مخالفین کی مخالفت کرنے کی وجوہ پرغور کیا جائے اور ان کے تحفظات دور کیے جائیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جو لوگ بھارت میں سیاسی پناہ کے نام پاکستان کو رسوا کرتے ہیں اور بھارت کی خیرات سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں ان کا احتساب ہونا چاہیے کیونکہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی ہجو کرتے رہے ہیں اور بھارت ان کے خیالات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اصولی طور پر ایسے لوگوں کی شہریت کو ختم کردینا چاہیے تاکہ کوئی دوسرا شخص ایسی مکروہ اور گھٹیا حرکت کا مرتکب نہ ہو مگر ہمارے ہاں ایسے مگروہ اور گھٹیا لوگوں کی کمی نہیں کیونکہ جب بھی یہ لوگ پاکستان آتے ہیں تو انہیں تنخواہ ہی نہیں پرموشن سے بھی نوازا جاتا ہے المیہ یہ بھی ہے کہ عدلیہ ایسے معاملات بھی ازخودنوٹس لینے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرسکتی شنید ہے کہ جج اور جسٹس صاحبان کی دیانتداری کے درمیان پلاٹ اور دیگر سہولتیں حائل ہوجاتی ہے واللہ علم