عالمی امدادی ایجنسیاں اور افغانستان

373

اقوام متحدہ کا عالمی سامراجی نظام میں ایک خاص مقام ہے۔ سامراجی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے یہ فوج فراہم کرتی ہے۔ مغربی اور وسطی افریقا میں یہ افواج (جن میں پاکستانی سپاہی بھی شریک ہیں) پھیلی ہوئی ہیں اور فرانسیسی ریاستی دہشت گردوں کا ان بین الاقوامی سامراجی افواج پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سامراجی افواج، امریکا، فرانس اور برطانیہ کو فوجی امداد فراہم کرتی ہیں اور امریکا اور فرانس کے لیے غریب ممالک پر فوج کشی کرواتی ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی تحکیم کو قائم رکھنے میں بھی اقوام متحدہ کا اہم کردار ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ان معنوں میں مجہول ہے کہ اس کا کوئی پبلک سیکٹر موجود نہیں۔ پبلک سیکٹر کی کارفرمائی سرمایہ کاری کے عالمی فروغ اور تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ یہ کمی اقوام متحدہ کے ادارے اور اسپیشل ایجنسیاں کسی نہ کسی حد تک پوری کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن ہیں۔ یہ ایجنسیاں تجارت، ترسیل اطلاعات اور زر کے وہ بین الاقوامی اصول و ضوابط مرتب کرتے ہیں جو عالمی سرمایہ دارانہ بڑھوتری کو منظم کرتے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کی پابندی کے نتیجے میں ہر ملک عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ تحکم قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس پابندی کے ذریعے اپنی معاشی اور سیاسی خود مختاری مستقل کھوتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ایسے ادارے بھی ہیں جو سامراجی بھیک تقسیم کرتے ہیں۔ ان میں ڈبلیو ایچ او، یو این ڈی پی، یو این ایف پی، یونیسف اور عالمی بینک وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سامراج کی نرم قوت کے مظہر ہیں۔ ان اداروں کا مقصد دہریت اور مغربی تہذیبی رجحانات کا عالمی فروغ ہے۔ دہریت کے فروغ کے لیے غریب ممالک میں سیاسی تخریب کاری کرتے ہیں مثلاً آ ج کل افغانستان میں حکومت کے خلاف افواہیں پھیلانے میں یو این ایف پی اور ڈبلیو ایچ او ایک نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ وینزویلا میں یو این اداروں نے کھل کر وہاں کے حکومت کے مخالفوں کے مظاہروں کو منظم کرنے میں بھی اعانت فراہم کی۔ کیا عجب کہ افغانستان کے شہروں میں حالیہ مظاہروں اور بم دھماکوں کو منظم کرنے میں بھی ان کا ہاتھ ہو کیونکہ یہ ادارے سابقہ غدار حکومت کے دست راست بنے رہے تھے۔
مغربی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے یہ ادارے افغانستان میں خاندانی اور قبائلی نظام پر حملہ آور ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کی دہائی دیتے ہیں اور ہیومن رائٹس سرمایہ دارانہ ملکیت، انفرادیت، تعقل اور معاشرت کو فروغ دینے کا اصل وسیلہ ہیں۔ وہ عورتوں کی ملازمت کو پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ افغان خواتین سرمایہ دارانہ چکر میں گرفتار ہو کر اپنی روایتی خاندانی و قبائلی پاک باز سادہ اسلامی محفوظ طرز معاشرت کی قربانی دے کر ملازمت کے بازاروں میں آ جائیں۔ یو این ایجنسیوں کے کارکن کئی افریقی ممالک میں بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
غدار حکومت نے ان اداروں کی اجارہ داری افغانستان کے صحت اور تعلیم کے شعبہ پر مستحکم کی تھی۔ اپنی اس اجارہ داری سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بالخصوص نوجوانوں اور اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ میں عیاشی، عریانی اور بے راہ روی پھیلانے کی پوری کوشش کی۔ اس میں شک نہیں کہ افغانستان میں اسلام مخالف قوتوں میں یو این کے یہ ادارے سرفہرست ہیں اور سامراج اپنی تخریب کاری جاری رکھنے کے لیے ان کو کلیدی آلہ کار کے طور پر استعمال کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان یو این اداروں کو ملک سے فوراً باہر نکال دیا جائے۔ توقع ہے کہ اس سے دشمن کی تخریب کاری اور دہشت گردی کی مہم غیر موثر ہوتی چلی جائے گی اور عوام میں سیکولر رجحانات کمزور ہو جائیں گے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے پر اسلامی اقتداری، ادارتی صف بندی نہایت ضروری ہے۔ تمام غیر ملکی امداد پر چلنے والے تعلیمی اور صحتی ادارے فی الفور قومیا لے جانے چاہئیں اور ایک ایسا ملک گیر ترسیلی نظام قیام عمل میں آئے جس کے ذریعے افغانستان کو حاصل شدہ تمام غیر ملکی وسائل (درآمدات، اشیا اور دولت) قومی حکومت کی تحویل میں جمع ہوں اور قومی حکومت ہی ان کی ملک گیر تقسیم کی ذمے دار ہو۔ کسی شخص یا نجی ادارہ کو بیرونی وسائل کے حصول اور تقسیم کی اجازت نہ ہو۔
سامراج کی کوشش ہے کہ افغان عوام میں خوف و ہراس اور مایوسی پھیلائے لہٰذا سامراجی میڈیا (ملکی اوربین الاقوامی) یو این ایجنسیاں اور غیرملکی این جی اوز نے افواہ سازی کی فیکٹریاں پورے افغانستان میں کھول رکھی ہیں۔ وہ مستقل یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں کہ موسم سرما میں ملک میں فاقہ کشی عام ہو گی۔ امراضی بحران آ جائے گا۔ علاقائی نظام مراسلت تباہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کھلا جھوٹ ہے اور ان شا اللہ ایسا کچھ نہیں ہو گا(نہ اس سے پہلے طالبان کے پہلے دور اقتدار 1996 تا 2001 میں ہوا تھا۔) افواہ سازی کا یہ ناکام حربہ سامراج کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا کے ضمن میں بھی آزما چکا ہے اور اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ فاقہ کشی نہ کیوبا میں عام ہوئی نہ وینزویلا میں نہ کوریا میں گو کہ ان ممالک کے خلاف سامراجی معاشی پابندیاں کئی دہائیوں سے نافذ ہیں۔ ان افواہوں اور پابندیوں کا مقصد ہے کہ عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر انقلابی حکومت کو سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس مذموم مہم کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ افواہ سازی کی ان فیکٹریوں میڈیا، اقوام متحدہ کے اداروں اور غیر ملکی امداد یافتہ این جی اوز کو فی الفور قومیا لیا جائے۔
2۔ تمام غیر ملکی صحافیوں، نامہ نگاروں اور میڈیا اداروں کو ملک سے نکال دیا جائے اور انٹرنل سرورز پر کڑی پابندیاں عاید کی جائیں۔
3۔ حکومت افغانستان کے تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو منسوخ کر دے کیونکہ: 1۔ یہ قرضہ غدار حکومتوں نے لیا تھا اور ان کی ادائیگی کی ذمے داری امریکا، ناٹو قابض ممالک اور ان غدار حکومتوں کے اہل کاروں کی ہے۔ 2۔ یہ قرضے سودی ہیں اور ان کی ادائیگی شرعاً ممنوع ہے۔ 4۔ افغانستان آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی سے فوراً نکل جائے کیونکہ یہ ادارے سرمایہ دارانہ اصولِ تجارت، ترسیل اطلاعات اور زر اپنے رکن ممالک پر مسلط کرتے ہیں اور افغانستان اپنے آپ کو سرمایہ دارانہ نظاماتی جکڑبندیوں سے آزاد ہو کر ایک خود کفیل اور خود انحصاری معاشی پالیسی کو اپنا رہا ہے۔