!ڈاکٹر عبد القدیر خان ؒ سے ملاقات جو نہ ہوسکی

837

موت کا مزہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے۔ ہر ایک کو دنیا سے جانا ہے لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو موت خوشی خوشی اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ مرنے کے بعد بھی یہ لوگ زندہ و تابندہ رہتے ہیں اور تاریخ میں بھی وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ بات قرآن پاک کی اس آیت کی عکاس ہے کہ وہ لوگ مرتے نہیں، زندہ ہوجاتے ہیں‘‘ ڈاکٹر عبد القدیر خان ؒ انہی شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے فی سبیل اللہ زندگی گزاری۔ جو دلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
جنوبی پنجاب کے دورہ کے دوران مجھے ان کے سانحہ ٔ ارتحال کی اندوہناک خبر ملی۔ میں نے بہاول پور میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور جماعت کے مرکزی قائدین لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور میاں محمد اسلم سمیت کارکنان جماعت کو نماز جنازہ میں شرکت کی ہدایت کی۔ افسوس کہ اسلام آباد کی بدانتظامی اور بے اعتنائی کی وجہ سے کئی لوگ فیصل مسجد پہنچنے کے باوجود جنازے میں شریک نہیں ہوسکے۔ فیصل مسجد میں دوسری غائبانہ نماز جنازہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے پڑھائی۔ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور سمیت کئی ملکوں، شہروں اور دیہاتوں میں جگہ جگہ ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں عوام نے بڑی عقیدت کے ساتھ جوق در جوق شرکت کی۔ جب میں اپنے گھر پہنچا تو وہاں بھی میں بھی سوگ کا سماں تھا جیسے کسی کا حقیقی باپ فوت ہوگیا ہو۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ جو لوگ ملک و قوم کی خاطر زندگی گزارتے ہیں، ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں فروزاں رہتی ہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خانؒ 1936میں بھوپال میں پیدا ہوئے، انہوں نے خاندان سمیت پاکستان ہجرت کی۔ وہ من کے سچے اور پکے مسلمان اور حبُ الوطنی سے سرشار پاکستانی تھے۔ ان سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات ان کے گھر پر ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے ذاتی کمرے میں چاروں طرف کتابیں، دنیا بھر کے تحقیقی مقالے، رسائل و جرائد، اسلامی تاریخ و لٹریچر، اقبالیات اور ادب پر بے شمار کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ جب ہم ان سے ملنے جارہے تھے تو راستہ میں جگہ جگہ حفاظتی رکاوٹیں تھیں جن کا ڈاکٹر صاحب کو احساس تھا اس لیے وہ اپنے گھر کے مین گیٹ سے باہر استقبال کے لیے نکل آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ملتے ہی احساس ہوا کہ جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں اور پھر ہمارے درمیان بے تکلفی ہوگئی جو ان کی حیات تک برقرار رہی۔
ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایٹم بم بنانے کا کام مجھ سے لیا ہے۔ اس پر میں اللہ کریم کا جتنا شکر ادا کروں، کم ہے۔ اتنے عظیم الشان کارنامے پر وہ تکبر اور غرور کے بجائے عجز و انکساری کا اظہار کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حکمرانوں اور خاص طور پر پرویز مشرف کے تلخ رویے کا بار بار ذکر کیا۔ جو ناروا سلوک ان سے اس ظالم شخص کے زمانے میں محسن پاکستان سے کیا گیا اور جس طرح ان کی آزادی سلب کی گئی اور خاص طور پر ان سے جبراً ایک ایسے کام کا اعتراف کروایا گیا جو انہوں نے نہیںکیا تھا ڈاکٹر عبد القدیر خان ؒ اس بوجھ اور درد محسوس کرتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان اسلامی اور ترقی یافتہ ملک بنے۔ وہ باربار کہتے تھے کہ پاکستان آئندہ نسلوں کے لیے امانت ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس ملاقات میں الخدمت فائونڈیشن اور خاص طور پر جماعت اسلامی کے یتیم بچوں کی کفالت کے کام کو بہت سراہا۔ اس ملاقات میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بہت سارے یتیم بچوں کی کفالت بھی کرتے ہیں اور کئی بچوں کی تعلیم کا بوجھ بھی انہوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ قاضی حسین احمد ؒ اور سید منور حسن ؒ کے ساتھ اپنے تعلقات اور ملاقاتوں کے علاوہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ اپنے گہرے تعلق کا بھی ذکر کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی کو نئی نسل کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ میں نے جماعت اسلامی اور اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ ان کی خدمت میں پیش کی۔ جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں آپ کے ہر پروگرام میں شریک ہونا چاہتا ہوں لیکن کسی بھی پروگرام میں شرکت کی مجھے اجازت لینا پڑتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ قیادت کی مثال مچھلی کی طرح ہے۔ اگر مچھلی کا سر خراب ہوجائے تو اس کا باقی دھڑ بوسیدہ ہوجاتا ہے، اگر ملک کی قیادت خراب ہوجائے تو معاشرے میں خرابیاں عام ہوجاتی ہیں اور پھر فرمایا کہ معاشرے میں جھوٹ، کرپشن اور ملاوٹ حکمرانوںکی وجہ سے ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ہر خرابی کا ذمے دار عام آدمی کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ ابھی ہم ان کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بندروں کی بڑی تعداد نے ان کے کچن کا محاصرہ کرلیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ میرے ہر روز کے بن بلائے مہمان ہیں، میرے باورچی خانے میں ان کا حصہ باقاعدگی سے پکتا ہے۔ کھانا کھائے بغیر یہ مہمان جانے کا نام نہیں لیتے۔
ڈاکٹر صاحب نے وفات سے کچھ دن قبل لیاقت بلوچ کو فون کیا کہ میں سراج الحق سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس ملاقات کے لیے 14اکتوبر تین بجے کا وقت مقرر ہوا، لیکن اس سے پہلے ہی وہ اللہ کے پاس چلے گئے۔ اس ملاقات میں وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتے تھے، وہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن مجھے جہاں ان کی وفات کا انتہائی دکھ اور صدمہ ہے وہاں اس ملاقات کے نہ ہونے کا بھی بے حد افسوس ہے اور یہ حسرت زندگی بھر مجھے ستاتی رہے گی۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان ہی کے نہیں عالم اسلام کے ہیرو بھی تھے۔ وہ درحقیقت اُمت مسلمہ کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے اور ان کے تحفظ کی ضمانت تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے صرف مسلمانوں کو محفوظ نہیں کیا بلکہ طاقت کے نشے میں چور طاغوتی قوتوں کو کمزور قوموں پر ظلم وستم سے روکنے اور عالمی امن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے امن کو یقینی بنا دیا۔ کاش ہمارے حکمران اور عسکری قیادت اپنے محسن، محسن پاکستان کی قدر کرتے۔ کم از کم ان کے جنازے کو کندھا ہی دے دیتے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے صرف پاکستانی ہی نہیں عالم اسلام کا ہر فرد محبت کرتا تھاکرتا رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا جماعت اسلامی سے ہمیشہ محبت اور خلوص کا تعلق رہا۔ وہ برملا کہا کرتے تھے کہ جماعت اسلامی، اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کی جماعت ہے۔ وہ ایک نظریاتی شخصیت تھے۔ اخبارات میں چھپنے والے مضامین اور میڈیا سے ان کی گفتگو ان کے اسلام سے گہرے تعلق، نبی کریم ؐ سے عشق و عقیدت اور پاکستان کی اسلامی خطوط پر تعمیرو ترقی کا خواب اس کا ثبوت ہیں۔ ان کے سانحہ ٔ ارتحال سے امت مسلمہ اور خصوصاً پاکستانی قوم غمزدہ ہے اور سایہ شفقت سے محروم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس مخلص بندے کو جنت کا لباس پہنا کر اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں اپنا مہمان بنائے۔ آمین