ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام

594

تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ پاکستان نے دفاعی ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی لیکن امریکا اور مغربی ممالک کسی صورت بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اب ان کی خواہش تھی کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کردے اور اپنی ایٹمی صلاحیت سے دستبردار ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ امریکی کانگریس نے پاکستان کے خلاف پریسلر ترمیم منظور کرلی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام چوں کہ جارح مقاصد کے لیے ہے اس لیے جب تک وہ اس سے باز نہیں آتا اس کی فوجی و اقتصادی امداد روک دی جائے۔ ابھی اس قانون پر عمل نہیں ہوپایا تھا کہ عالمی حالات نے پلٹا کھایا اور افغانستان پر سوویت فوجوں کی یلغار نے سارا منظرنامہ تبدیل کردیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پس منظر میں چلا گیا اور افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ اور اس کے خلاف افغان مجاہدین کی مزاحمت موضوع بحث بن گئی۔ اس مزاحمت کی پس پردہ قیادت پاکستان کررہا تھا کیوں کہ وہ سمجھتا تھا کہ سفید ریچھ کی پیش قدمی کو نہ روکا گیا تو اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ امریکا نے بھی اپنے عالمی حریف سے بدلہ چکانے کا یہ موقع غنیمت جانا اور اس نے افغان مجاہدین کے لیے اپنے خزانے اور اسلحہ خانے کے منہ کھول دیے۔ جنرل ضیا الحق نے جو اس وقت پاکستان کے حکمران تھے اس امداد کا خیر مقدم کیا لیکن شرط یہ لگائی کہ یہ امداد پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین تک پہنچائی جائے گی۔ امریکا براہ راست ان سے رابطہ نہیں کرسکے گا۔ یوں امریکا سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں پاکستان کا دست نگر بن کر رہ گیا۔ پاکستان کے خلاف پریسلر ترمیم دھری کی دھری رہ گئی، پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی امریکا کے نزدیک قابل اعتراض نہ رہا اور امریکی صدر پاکستان کی اقتصادی و فوجی امداد جاری رکھنے کے لیے ہر سال یہ سرٹیفکیٹ جاری کرتا رہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس سے عالمی امن کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حالاں کہ امریکا اچھی طرح جانتا تھا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنارہا ہے جس کا مقصد بھارت کے خلاف ’’نیوکلیئر ڈیٹیرنس‘‘ قائم کرنا ہے۔ امریکا کسی صورت بھی اسے برداشت کرنے کو تیار نہ تھا لیکن افغان جنگ میں اس نے ازخود اپنی گردن اس طرح پھنسائی تھی کہ پاکستان کا تعاون حاصل کیے بغیر اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہ تھا اور وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے صرف نظر کرنے پر مجبور تھا۔
جونہی سوویت یونین افغانستان سے پسپا ہوا اور کسی ڈیکلیریشن کے بغیر افغان جنگ ختم ہوگئی تو امریکا نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ پاکستان خلاف پریسلر ترمیم کو فوری طور پر لاگو کردیا اور پاکستان کی اقتصادی و فوجی امداد روک دی۔ وہ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق سے بھی پیچھا چھڑانا چاہتا تھا کیوں کہ جنرل ضیا نے اس کی گردن دبوچ رکھی تھی اور اسے زچ کرکے رکھ دیا تھا۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق کو ہلاک کرنے کی سازش تیار کی گئی اور انہیں اعلیٰ فوجی قیادت سمیت ٹھکانے لگادیا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل ضیا الحق خطرے کی بُو محسوس کررہے تھے۔ وہ 17 اگست 1987ء کو اعلیٰ فوجی حکام کے علاوہ امریکی سفیر کو بھی اپنے ہمراہ ملتان لے گئے تھے جہاں پاکستانی ٹینک الخالد کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا سمجھتے تھے کہ امریکا اپنے سفیر کی جان لینے پر آمادہ نہ ہوگا لیکن اس نے اپنا جانی نقصان برداشت کرلیا۔ موقع ضائع نہیں کیا اور صدر جنرل ضیا الحق کا طیارہ جس میں صدر کے ہمراہ اعلیٰ فوجی افسران اور امریکی سفیر سوار تھے۔ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہوگیا اور اس میں موجود تمام مسافر طیارے کو آگ لگنے سے جل کر موت سے ہمکنار ہوگئے۔ صدر جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد امریکا کے ذہن سے ایک بہت بڑا بوجھ اُتر گیا۔ امریکا نے طیارے کے حادثے پر پُراسرار خاموشی اختیار کرلی اس نے اپنے سفیر کی موت پر کوئی تحقیقات نہیں کرائی۔ پاکستان میں جنرل ضیا الحق اور اعلیٰ فوجی افسران کی ہلاکت بھی صیغہ راز میں رہی۔ بس سسٹم میں تبدیلی آگئی۔ چیئرمین سینیٹ غلام اسحق خان صدر بن گئے۔ جنرل اسلم بیگ چیف آف آرمی اسٹاف ہوگئے اور بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے امریکا کی توجہ ہٹانے کے لیے فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کی بات دوبارہ شروع کردی جس کا معاہدہ بھٹو صاحب کے دور میں ہوا تھا اور جنرل ضیا الحق کے برسراقتدار آنے کے بعد فرانس نے یہ معاہدہ معطل کردیا تھا۔ جب عالمی سطح پر یہ بات پر زور دینے لگے کہ پاکستان کو فرانس سے ایٹمی پاور پلانٹ حاصل کرنے کے لیے ایٹمی عدم پھیلائو کے عالمی معاہدے۔ این پی ٹی پر دستخط کرنے ہوں گے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس معاہدے کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہی اپنے ایٹمی پلانٹ کے آر ایل کو عالمی معائنے کے لیے کھولنے کے لیے تیار تھے۔ عسکری قیادت ان کے اس موقف کی پُرجوش حامی تھی۔ چناں چہ فرانس سے معاہدہ نہ ہوسکا اور ڈاکٹر خان کے خلاف بے نظیر بھٹو کے دل میں گرہ سی پڑ گئی۔ پھر جب صدر غلام اسحق خان نے آئین کی شق 58 ٹوبی کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو ان کے نزدیک اس کا بنیادی سبب پاکستان کا ایٹمی پروگرام تھا۔ بعد میں خود بے نظیر بھٹو نے امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر انہیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور وزیراعظم ہونے کے باوجود انہیں اس پروگرام کی تفصیلات تک رسائی نہ تھی۔
(جاری ہے)