سیسی میں بغیر ڈیوٹی تنخواہوں کی ادائیگی

183

صوبائی محکمہ محنت سندھ کے ادارے سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں سکھر سے لے کر کراچی تک بے شمار ملازمین کئی سالوں سے بغیر دفتر آئے ہوئے باقاعدگی سے تنخواہ لے رہے ہیں۔سیکڑوں ملازمین جن کی پوسٹنگ کاغذات میں کراچی یا کسی اور شہر میں ہے جب کہ وہ کسی اور شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے موبائل فون کا ریکارڈ اس بات کا ثبوت دے گا کہ جس شہر میں ان کی پوسٹنگ ہے وہاں وہ فزیکلی تو موجود ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح سیسی کے ملازمین بااثر افسران و حکام بالا کے گھروں پر ذاتی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اور تنخواہ سیسی کے مختلف دفاتر حتیٰ کہ اسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے لے رہے ہیں جہاں کی ان غیر حاضری کی وجہ سے سیکورڈ ورکرز اور ان اہل خانہ کو علاج و معالجہ میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر کوئی متعلقہ افسر ان غیر حاضر ملازمین کو ملازمت پر لانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو انھیں سفارشی فون آجاتے ہیں۔ اور اگر وہ ان کے دباؤ میں نہ آئے تو پھر اس آفسر کا ہی کہیں اور تبادلہ کردیا جاتا ہے۔
سیسی کے اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور دیگر دفاتر میں بظاہر اسٹاف کی کمی ہے لیکن جب سیلری بل یا ڈائریکٹوریٹ یا اسپتالوں کی اسٹبلشمنٹ رپورٹ چیک کی جائے تو کچھ اسٹاف تو دفاتر میں ضرورت سے بھی زائد نکلے گا۔ غیر حاضر ملازمین اور ان کے سرپرست اتنے زیادہ طاقت ور ہیں کہ دو سال قبل سیسی میں کروڑوں روپے مالیت سے لگنے والے بائیو میٹرک حاضری سسٹم کو سیسی ہیڈ آفس سمیت کسی بھی لوکل آفس یا اسپتال میں کام نہیں کرنے دے رہے اور اس کے ذریعہ ملازمین کی حاضری نہیں لی جارہی ہے۔ بالخوص ڈرائیور اور چوکیدار تنخواہیں تو سیسی سے لے رہے ہیں لیکن ڈیوٹی بااثر افسران یا حکام بالا کے بنگلوں پر کررہے ہیں۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ کمپنی کے آدھے سے زائد گارڈز بھی انھوں نے اپنے گھروں پر رکھے ہوئے ہیں اور اس ان کی ادائیگی سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کررہا ہے۔ محنت کشوں کے نام پر وصول کئے جانے والے کنٹری بیوشن کو جس طرح لوٹا جارہا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ صوبائی وزیر محنت سندھ سعید غنی اور سیکرٹری لیبر لائق احمد کو اس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔