فضائی حدود کا استعمال۔ پاکستان پھر 2000ء میں

650

امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کے معاہدے کے قریب ہیں اور پاکستان نے حسب معمول تردید کی ہے۔ سی این این نے 2 روز قبل رپورٹ دی تھی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کے معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ پاکستان نے 2 شرائط رکھی ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی کاوشوں کے لیے امداد دی جائے اور بھارت سے بہتر تعلقات میں مدد دی جائے۔ سی این این کی خبر گردش میں تھی لیکن دفتر خارجہ نے گزشتہ روز اس کی تردید جاری کی جو روایتی تردیدوں کی طرح تھی۔ کہ پاکستان اور امریکا میں فضائی حدود دینے کے لیے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ دونوں ملکوں میں علاقائی سلامتی اور انسداد دہشت گردی پر دیرینہ تعاون ہے۔ شاید لوگوں کی یادداشت سے بات نکل گئی ہو لیکن یاد دہانی کرا دینے میں کوئی خرابی نہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل جب افغانستان سے امریکی بھاگے تھے انہوں نے ایک دن اچانک ڈرون حملہ کیا اور خبر جاری ہوئی کہ پاکستان کی اجازت سے ایسا ہوا ہے تو اس کے جواب میں وضاحت کی گئی تھی کہ ہم نے کوئی نئی اجازت نہیں دی ہے بلکہ یہ تو جنرل پرویز مشرف کے دور کی اجازت ہے جس کے تحت یہ حملہ کیا گیا ہے۔ پاکستانی قوم اور میڈیا کو دفتر خارجہ کی وضاحت تسلیم کر لینی چاہیے کہ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ یعنی پاکستان اپنی فضائی حدود امریکا کو استعمال نہیں کرنے دے گا۔ اور وزیراعظم اپنے Absolutely Not والے جواب پر قائم ہیں۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی اراکین کانگریس کو باقاعدہ آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ فضائی حدود کے استعمال کا معاہدہ ہونے والا ہے۔ امریکی صدر نے ارکان کانگریس کو باقاعدہ اطلاع دی ہے۔ امریکا میں گندا ترین کام کرنا جرم نہیں لیکن جھوٹ بولنا بڑا جرم قرار پاتا ہے لہٰذا بائیڈن ارکان کانگریس سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ انہیں اس کی سزا کا علم ہے۔ بل کلنٹن بھی مونیکا لیونسکی سے تعلقات پر مواخذے کی لپیٹ میں نہیں آئے تھے بلکہ جھوٹ بولنے پر آئے تھے کہ آپ نے جو کچھ بھی کیا سچ بولنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ امریکیوں کا معاملہ ہے۔ اگر بائیڈن نے جھوٹ بولا ہے تو اسے ہی بھگتنا ہوگا۔ ہم تو پاکستان کے مسئلے پر بات کریں گے کہ اگر یہ خبریں درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو 2000ء میں واپس لا کر کھڑا کیا گیا ہے جب پاکستان نے امریکا کو افغانستان میں حملوں کے لیے فضائی زمینی راہداری دی تھی اور طالبان کی حکومت ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ پاکستان میں جوابی کارروائیاں، امریکا کا جیکب آباد کے فضائی اڈے کو اپنا ٹھکانہ بنانا اور شمسی ائر بیس سے کارروائیاں کرنا بمشکل یہاں سے نکلنا سب کو یاد ہے۔ جب پاکستان ایسا کرے گا تو جواب میں پھول تو نہیں ملیں گے۔ اسے دہشت گردی کہنا چاہیے لیکن اس کا موقع ہم ہی نے دیا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکا کے کہنے پر پاکستان نے یہ غلطی کی تھی۔ لیکن اب کیا ہوگا۔ پہلے بھی امارت اسلامیہ کے خلاف تعاون کیا تھا لیکن اس وقت بدھا کا مجسمہ اور میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کام کر گیا اور دنیا طالبان کے خلاف ہو گئی۔ لہٰذا امریکی کارروائی اور پاکستانی تعاون کو کسی نے برا نہیں کہا بلکہ ایک ملک میں مداخلت کو عین جائز اور انسانیت کی ضرورت قرار دیا گیا۔ اس کے نتائج کیا ہوئے۔ امریکا نے 20 برس افغانستان میں جنگ لڑی اور اچھی طرح پٹ کر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے افغانستان سے نکل جانا چاہیے۔ اس مرتبہ امریکا سے بھی غلطی ہوئی اس نے امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ اس کا مطلب افغانستان کی اسلامی حکومت سے مذاکرات تھا اور پھر امریکا نے افغانستان سے نکل جانے کی تاریخ دی، طالبان سے کچھ رسمی سے مطالبات کیے گئے لیکن انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان پر حملے شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گردی شروع کرا دی۔ امریکی حکام نے علی الاعلان کہا کہ افغانستان پر فضائی حملے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ اعلان کیوں کیا گیا تھا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کا منصوبہ طے شدہ ہے۔ پاکستانی حکام کی تردید کو مان بھی لیا جائے تو طالبان کے انتباہ کو کیا کہا جائے جہنوں نے متنبہ کیا ہے کہ تمام پڑوسی ممالک افغانستان کے خلاف امریکا سے تعاون نہ کریں۔ طالبان کے ترجمان نے متنبہ کیا ہے کہ امریکا سمیت مداخلت کرنے والے ممالک نتائج کے خود ذمے دار ہوں گے اور نتائج کیا ہوں گے یہ بات کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستانی حکام نے امریکا سے جو بھیک مانگی ہے وہ ملے گی ہی نہیں۔ آج تک امریکا کی خدمت کا کیا صلہ ملا ہے 35 ہزار سویلین اور فوجیوں کی شہادت۔ اس قسم کے فیصلوں کے نتائج عوام کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ بات حکومت لکھ کر رکھ لے کہ امریکا اس تعاون کے بدلے فیٹف کی گرے لسٹ سے بھی نہیں نکلوائے گا۔ یہی حربہ تو پاکستان کو جھکائے رکھنے کا ہے۔ گرے لسٹ سے نکل جانے کے بعد تو پاکستان بھی آنکھیں دکھائے گا۔ پاکستانی فضائی حدود کے امریکی استعمال کی اجازت کا سیدھا سادا مطلب افغانستان میں مداخلت اور اس کا ردعمل ہے دونوں میں پاکستان کا نقصان ہے۔ پرائی جنگ میں حصہ نہ لینے کے اعلانات اور Not والے ڈرامے سب جھوٹ نکلے۔ قوم کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے حوالے کر دیا گیا۔