مغرب کی لوٹ مار اور نجکاری کا عمل

1082

مغربی اقدار کی دنیا لوٹ مار کی دنیا ہے۔ ہندوستان کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک نے اپنے ایک مضمون میں ثابت کیا ہے کہ انگریز ہندوستان سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ پاکستان 75 سال تک اس رقم سے اپنا بجٹ بنا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستان جیسے بڑے ملک کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار ڈھائی ہزار ارب ڈالر ہے۔ ممتاز برطانوی مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں انگریزوں کی لوٹ مار کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب انگریز برصغیر میں آئے تو اس وقت برصغیر عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیداوار کررہا تھا لیکن جب انگریز برصغیر کو لوٹ رہے تھے تو ہندوستان عالمی پیداوار کا صرف 4 فی صد پیدا کررہا تھا۔ اس کے باوجود بعض احمق مغرب کے غلبے کے دور کو ترقی اور روشن خیالی کا دور کہتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مغربی اقوام 18 ویں صدی میں دو مقاصد کے تحت اپنے جغرافیے سے نکلیں تھیں۔ ایک یہ کہ اپنی برآمدات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کریں اور دوسرا یہ کہ غریب اور کمزور قوموں پر غلبہ حاصل کرکے ان کے وسائل کو لوٹیں۔ تمام مغربی اقوام جب تک اپنی نوآبادیات پر قابض رہیں ان کے وسائل لوٹتی رہیں۔ اگرچہ نوآبادیاتی زمانہ ختم ہوگیا مگر مغرب کی پالیسی اور روش تبدیل نہیں ہوئی۔ ممتاز دانش ور wolfgang sachs نے اپنی تالیف The Development Dictionary میں لکھا ہے کہ امریکا کے صدر ہینری ٹرومین نے 20 جنوری 1949ء کو تقریر کرتے ہوئے دنیا کے جنوبی حصوں کو ترقی پزیر یا Underdeveloped areas قرار دیا تو انہوں نے گویا ترقی پزیر دنیا میں مغرب کی مداخلت کا اعلان کردیا تھا۔ ولف گینگ نے مزید لکھا ہے کہ ترقی کے افسانے کی پشت پر دنیا کو مغرب کے رنگ میں رنگنے کے ایجنڈے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ولف گینگ نے مزید لکھا کہ امریکی صدر ٹرومین نے ترقی پزیر دنیا کی ترقی کے لیے جو منصوبہ پیش کیا وہ دراصل ترقی پزیر دنیا پر امریکی غلبے کا منصوبہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کے اداروں عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے دنیا کو قرضوں کے سمندر میں غرق کردیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کمزور اقوام چار ہزار ارب ڈالر کی مقروض ہیں۔ دنیا کے 70 سے زیادہ ممالک آئی ایم ایف کے پروگرام کے دائرے میں سانس لے رہے ہیں، مگر ان میں سے کسی ملک کے اقتصادی حالات اچھے نہیں۔ ترقی پزیر ملکوں کی معیشتیں ایڑیاں رگڑ رہی ہیں اور ان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ آج سے 70 سال پہلے پاکستان پر ایک ڈالر کا بھی قرض نہیں تھا مگر آج پاکستان 110 ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اب ہمارے سالانہ بجٹ کا 45 فی صد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے اور ہمیں پرانا قرض چکانے کے لیے نیا قرض لینا پڑتا ہے۔ دنیا کے ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں کی ابتری اتفاقی صورت حال نہیں ہے۔ مغرب نے بڑے جتن سے ترقی پزیر ملکوں کی معیشتوں کو اپنے قرضوں میں جکڑا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نوآبادیاتی دور کا تسلسل برقرار ہے صرف اس کی صورت تبدیل ہوگئی ہے۔ اب ترقی پزیر اور کمزور اقوام کے حکمران مقامی ہیں مگر یہ حکمران مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ چناں چہ ترقی پزیر ممالک کی سیاسی اور اقتصادی آزادی محض ایک مفروضہ ہے۔ یعنی اس آزادی کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ مغربی دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کمزور اقوام کو اپنا سیاسی اور معاشی غلام بنانے کے لیے ان کے خلاف سازشیں کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں جان پرکنز کی تصنیف Confession of An Economic Hitman اس حوالے سے مشہور زمانہ ہے۔ جان پرکنز کے اپنے اعتراف کے مطابق وہ بھی مغرب کا آلہ کار، Economic Hitman یا اقتصادی غارت گر تھا۔ جان پرکنز نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ اکنامک ہٹ مین خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کا کام ہی دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بینک، امریکا کے مالیاتی ادرے یو ایس ایڈ اور دیگر غیر ملکی ’’امدادی‘‘ اداروں سے ملنے والی رقوم بڑی بڑی کارپوریشنوں اور بڑے بڑے دولت مند افراد کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ جعلی مالیاتی رپورٹوں کی تیاری، انتخابی دھاندلیاں، رشوت، استحصال، جنسی ترغیب اور قتل ان کے ہتھیار ہیں۔
جان پرکنز نے جب اکنامک ہٹ مین کی تربیت حاصل کی تو اُسے بتایا گیا کہ اس کی دو بنیادی ’’ذمے داریاں‘‘ ہیں۔ اس کی پہلی ’’ذمے داری‘‘ یہ تھی کہ بھاری بین الاقوامی قرضوں کا جواز فراہم کرو اور قرض کی رقم بڑی بڑی امریکی کمپنیوں میں واپس لانے کا باعث بنو۔ اس کی دوسری ’’ذمے داری‘‘ یہ تھی کہ وہ
قرض حاصل کرنے والے ملکوں کو دیوالیہ بنانے کے لیے کام کرے تا کہ یہ ملک ہمیشہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہیں اور جب امریکا کو فوجی اڈوں، تیل یا دوسرے وسائل تک رسائی کی ضرورت ہو یہ ملک باآسانی قابو میں آجائیں۔ (اقتصادی غارت گرد۔ صفحہ 32)
مغرب کی لوٹ مار اور استحصال کا کوئی ایک اسلوب نہیں بلکہ مغرب کا استحصالی ایجنڈا متنوع ہے۔ اس کی ایک صورت نجکاری کا عمل بھی ہے۔ مغرب اور اس کے آلہ کار ’’تاثر‘‘ دیتے ہیں کہ نجکاری کا عمل اقتصادی اور مالیاتی ارتقا کا حاصل ہے۔ یعنی یہ ایک نامیاتی یا Organic عمل ہے اور اسے اوپر سے مسلط نہیں کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نجکاری کا اقتصادی اور مالیاتی ارتقا سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اسے سرمایہ دار معاشروں اور افرد پر اوپر سے مسلط کررہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ چین کی اقتصادی ترقی ’’پبلک سیکٹر‘‘ میں ہوئی ہے، نجی شعبے میں نہیں۔ چین کی اقتصادی ترقی کوئی معمولی بات نہیں۔ چین کی ترقی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مغربی اقوام نے جو مادی ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی ہے چین نے وہ مادی ترقی چالیس پینتالیس سال میں کرکے دکھا دی ہے اور وہ بھی دوسری اقوام کے وسائل کی لوٹ مار کے بغیر۔ چناں چہ ترقی پزیر دنیا کے لیے سائنسی، اقتصادی اور مالیاتی ترقی کا ماڈل اب مغرب نہیں چین ہے۔ ترقی پزیر ملکوں کا اصل مسئلہ غربت ہے اور چین نے چالیس سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال کر دکھایا ہے۔ اس سلسلے میں نجکاری کے عمل کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر مغرب کی حکومتیں اور سرمایہ کار پاکستان جیسے کمزور ملکوں کو یہ پٹی پڑھارہے ہیں کہ تم نجکاری کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔
سوال یہ ہے کہ جب چین پبلک سیکٹر یا سرکاری شعبے میں بہترین پیداواری صلاحیت کا مظاہرہ کرسکتا ہے تو پاکستان یا اس جیسے دیگر ممالک ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ مگر مغرب کی استحصالی ذہنیت کمزور اقوام کی توجہ اس نکتہ پر مرکوز نہیں ہونے دیتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نجکاری کا عمل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مختصر جواب یہ ہے کہ نجکاری کا عمل ریاست کے مادی وسائل کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس عمل کی ہولناکی یہ ہے کہ جب تک ریاست کے وسائل ریاست کے پاس رہتے ہیں ان سے عام اور غریب افراد بھی استفادہ کرسکتے ہیں مگر جب ریاست کے وسائل نجی شعبے کے حوالے ہوجاتے ہیں تو پھر ان وسائل سے عام آدمی استفادہ نہیں کرپاتا۔ بھارت کی ممتاز ناول نگار اور سماجی رہنما ارون دھتی رائے نے اس کی ایک مثال اپنے مضمون میں بیان کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 1999ء میں بولیویا کی حکومت نے چاکومبا شہر میں پانی کی فراہمی کے نظام کو نجکاری کے تحت ایک امریکی کمپنی بیکٹل کے حوالے کردیا۔ اس کمپنی نے پہلا کام یہ کیا کہ پانی کی قیمت تین گنا بڑھادی۔ اس طرح پانی لاکھوں لوگوں کی رسائی سے باہر نکل گیا۔ اس کی ایک بدترین مثال پاکستان میں تعلیم کی نجکاری ہے۔ ہم جب 1991ء میں جامعہ کراچی میں ایم اے کرکے نکل رہے تھے تو ملک میں کوئی جامعہ بھی نجی شعبے میں نہیں تھی مگر اب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی آدھی سے زیادہ تعداد پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی گرفت میں آچکی ہے۔ ان یونیورسٹیوں کی فیس لاکھوں میں ہے اور عام طلبہ ان جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ خود سرکاری جامعات کا یہ حال ہوگیا ہے کہ اس وقت جامعہ کراچی میں ایم اے کے ایک سمسٹر کی فیس 12 ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ ہم نے ایم اے کے آخری سمسٹر کی فیس ساڑھے چار سو روپے جمع کرائی تھی۔ اگر اس وقت ایک سمسٹر کی فیس 12 ہزار روپے ہوتی تو ہم جامعہ میں تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ جب پاکستان میں نجکاری کا عمل شروع کیا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ صرف غیر منافع بخش ادارے نجی شعبے کے حوالے کیے جائیں گے مگر بعدازاں منافع کمانے والے ادارے بھی نجی شعبے کے حوالے کردیے گئے۔ جیسے پی ٹی سی ایل۔ نجکاری کے عمل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خریدنے والا یا فرنٹ مین کوئی اور ہوتا ہے اور اصل خریدار کوئی اور۔ اس طرح نجکاری کا عمل قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں اب تک نجکاری سے سات آٹھ لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نجکاری کے عمل سے سات سے آٹھ لاکھ خاندانوں کو اقتصادی دشواری کا شکار کردیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نجکاری کا عمل ’’امیر دوست‘‘ اور ’’غریب دشمن‘‘ عمل ہے۔ چوں کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے اس لیے نجکاری کا عمل پاکستان کے عوام کی اکثریت کے خلاف ایک سازش ہے۔