1 ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام

508

ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی آخر اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ جانے والا چلا جاتا ہے اس کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر خان تو ایک ایسی شخصیت تھے جن کی یادیں پاکستان کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاکستان جب تک قائم رہے گا اور ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا تو ڈاکٹر خان کی یادیں بھی ہمیشہ قائم رہیں گی۔ انہیں ’’محسن پاکستان‘‘ کا خطاب کسی حکومت نے نہیں، پاکستانی ذرائع ابلاغ اور عوام نے دیا تھا، یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ ان کے نام کا حصہ بن گیا بالکل اسی طرح جیسے قائداعظم، محمد علی جناح کے نام کا حصہ بن گیا تھا۔ قائداعظم کہتے ہی صرف اور صرف ایک ہی شخصیت ذہن میں آتی ہے اور وہ محمد علی جناح کی ہے۔ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور محسن پاکستان کہتے ہی ڈاکٹر خان کا نام ذہن میں آتا ہے جنہوں نے قائداعظم کے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ یہ سب قدرت کا کارنامہ اور قادر مطلق کا فیصلہ ہے۔ کسے خبر تھی کہ یکم اپریل 1936ء کو بھوپال میں پیدا ہونے والا بچہ جب کم سنی کی حالت میں ہجرت کرکے اپنے نئے وطن پاکستان پہنچے گا تو اس کے اندر اپنے نئے وطن کی خدمت کرنے کی دھن سوار ہوجائے گی۔ وہ پاکستان میں تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد جب مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جائے گا تو یہ دھن وہاں بھی اس کا پیچھا کرتی رہے گی۔ بالآخر وہ ایٹمی راز اپنے دل میں چھپائے پاکستان آجائے گا اور پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے گا۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے اسے پاکستان سے کاٹ دیا تھا۔ پاکستان ابھی اس صدمے سے پوری طرح سنبھل نہیں پایا تھا کہ بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکا کردیا اور باقی ماندہ پاکستان کو بھی جارحانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے ان کے لیے بھارت کا ایٹمی دھماکا ایک چیلنج بن گیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی جو اس وقت ہالینڈ کے ایٹمی تحقیقی ادارے سے وابستہ تھے، بھارت کے ایٹمی دھماکے کو پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک چیلنج سمجھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کرکے انہیں اپنی خدمات پیش کیں، مسٹر بھٹو نے انہیں نہایت مثبت جواب دیا اور انہیں پاکستان واپس آکر ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی دعوت دی۔ وزیراعظم نے 1974ء کے اواخر میں بھارتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ملتان میں ایٹمی سائنسدانوں کی ایک کانفرنس بلائی تو ڈاکٹر خان کو اس کانفرنس میں خصوصی طور پر مدعو کیا۔ بھٹو صاحب نے کانفرنس میں بڑی جذباتی تقریر کی اور سائنسدانوں سے کہاکہ پاکستان بھی تین سال پہلے بھارت کا ایک کار وار سہ چکا ہے اب وہ ایٹمی طاقت کے ذریعے پاکستان کو مستقل غلام بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے مقابلے میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے، اگر ہم نے بھارت کا یہ چیلنج قبول نہ کیا تو ہم اپنی آزادی برقرار نہ رکھ سکیں گے اور ہمیں بھارت کے آگے سرنڈر کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر خان پر اس تقریر کا خاص اثر ہوا۔ انہوں نے ہاتھ کھڑا کرکے کہاکہ وہ اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ وزیراعظم بھٹو کی دعوت پر 1976ء میں اپنی پرکشش ملازمت چھوڑ کر مستقلاً پاکستان آگئے اور ایٹمی پروگرام پر کام کا آغاز کردیا۔ پہلے چک لالہ میں ابتدائی نوعیت کا دفتر قائم کیا گیا پھر سرویئر جنرل کی رپورٹ کے مطابق کہوٹا کے پہاڑی علاقے کو ایٹمی پلانٹ کی تنصیب کے لیے منتخب کیا گیا۔
اگرچہ ملک میں پاکستان ایٹمی کمیشن کے نام سے ایٹمی ریسرچ کا ایک ادارہ پہلے سے موجود تھا لیکن اس کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی تھی چنانچہ ڈاکٹر خان نے آزاد و خود مختار حیثیت سے کام کرنا پسند کیا انہیں ان کی ضرورت کے مطابق مالی وسائل فراہم کیے گئے اور ان کے ادارے کو سرکاری طور پر ’’خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ (کے آر ایل) کے نام سے موسوم کیا گیا جو بجا طور پر ڈاکٹر خان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد پاکستان کو دفاعی اعتبار سے ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانا تھا۔ یہ کام انتہائی مشکل بھی تھا اور حد درجہ رازداری کا تقاضا بھی کرتا تھا۔ امریکا اور مغربی دنیا بھارت کو تو ایٹمی ملک دیکھنے کی روادار تھی لیکن وہ پاکستان یا کسی بھی مسلمان ملک کو ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کی حیثیت سے برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے علی الاعلان بھارت کے مقابلے میں ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو امریکا انہیں وارننگ دے چکا تھا۔ ڈاکٹر خان کے سامنے پہاڑ جیسی مشکلات تھیں لیکن وہ اور ان کے جاں نثار ساتھی سائنسدان اپنے کام میں لگے رہے۔ رازاری کا یہ عالم تھا کہ ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی کہ وہ کیا کررہا ہے، ان کے درمیان رابطے کا واحد ذریعے ڈاکٹر خان تھے۔ بیرون ملک سے ایٹمی پلانٹ کے لیے جو سامان، مشینری اور پرزہ جات درآمد یا اسمگل کیے گئے اور اس کی بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ حالانکہ امریکا اور مغربی ممالک شکاری کتوں کی طرح پاکستان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔
بالآخر ڈاکٹر خان کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ انہوں نے ایٹمی مواد کے حامل یورینیم کو ایٹم بم گریڈ تک افزودہ کرنے کا مقصد 1984ء میں حاصل کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو تو یہ خوش خبری نہ سن سکے لیکن ان کے بعد جنرل ضیا الحق نے اس ’’خوش خبری‘‘ کو بھارت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کے ذریعے اپنے دشمن کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ اب پاکستان بھی اس کے مقابلے کی ایٹمی طاقت بن گیا ہے، اگر اس نے پاکستان کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی تو وہ یہ جان لے کہ اس کے تمام بڑے شہر پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ ابھی کھلم کھلا ایٹمی دھماکا نہیں کیا تھا لیکن امریکا اور یورپ میں اس خبر نے سنسنی پھیلادی تھی کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ بھارت کا رنگ بھی اڑ گیا تھا اور اسرائیل بھی ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا تھا۔ اس نے بھارت کے ساتھ مل کر دو مرتبہ کہوٹا ایٹمی پلانٹ پر حملہ آور ہونے کی سازش تیار کی لیکن دونوں مرتبہ پاکستان کو اس سازش کی خبر ہوگئی اور اس نے سازشی ملکوں کو وارننگ دیکر اس سازش کا قطع قمع کردیا۔ پاکستان کے کامیاب ایٹمی پروگرام کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام بھی پوری دنیا میں گونجنے لگا اور پاکستان دشمن ممالک ان کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ضیا حکومت نے اس صور تحال میں پورے پروٹوکول کے ساتھ ان کی سیکورٹی بڑھا دی اور مشتبہ عناصر کی ڈاکٹر خان تک رسائی ممکن نہ رہی۔
(جاری ہے)