خوش آمدی ترقی کا رہنما اصول

478

آج بے حد اہم موضوع پر بات کرنی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کچھ لوگوں کو بات بات پر جی سر کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ خاص طور پر سرکاری ملازمت میں تو کامیابی کا بہترین اصول جی سر ہے اس الفاظ سے افسر کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے نہ ہونے والے کام بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں کو بھی جی سر والے بے حد پسند ہیں۔ یہ لوگ ہر حکومت میں آتے ہیں، اپنا کام کرتے ہیں پھر جس حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں اس کے جانے کے بعد جب دوسری حکومت میں آتے ہیں تو جن کے ساتھ حکومت میں شامل تھے پھر ان کو برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو اگر منافق کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ میرے ایک دوست جو مجھے اچھے لگتے ہیں اُن کی بھی جی سر کہنے کی عادت ہے۔ میں اُن سے کہتا ہوں یار مجھے تو کم از کم جی سر نہ کہا کرو ویسے تم ترقی بہت کرو گے۔ ایک واقعہ تحریر کررہا ہوں، غور سے مطالعہ کریں گے تو سمجھ میں بھی آئے گا اور مزا بھی۔
ایک بادشاہ کو اچھے کھانے کا شوق تھا، دور دور سے باورچی آتے، بادشاہ سلامت کے لیے مختلف النوع کھانے تیار کرتے، بادشاہ سلامت کو پسند آتے، انعام و اکرام سے نوازے جاتے، اگر بادشاہ کو کھانا پسند نہ آتا تو ذلیل و خوار ہوتے۔ گائوں کے ایک باورچی کو بینگن بہت اچھے پکانے آتے تھے اور سارا گائوں اس کے پکائے ہوئے بینگنوں کی تعریف کرتا۔ اسے کسی نے بتایا کہ ملک کے بادشاہ کو اچھے کھانے کا بہت شوق ہے، وہ دربار میں گیا یہ سوچ کرکے قسمت آزمائی جائے پھر بادشاہ کو بگھارے بینگن بنا کر کھلا دیے۔ بادشاہ سلامت بینگن کھا کر بہت خوش ہوئے تو ان کے مصاحب خاص نے کہا کہ بادشاہ سلامت بینگن بھی کیا شاہی سبزی ہے۔ یہ واحد سبزی ہے جس کا جامنی نہایت خوب صورت رنگ اور سر پر ہرے رنگ کا تاج ہوتا ہے اور اس پر باورچی کا ہاتھ اور اس کا مزہ واہ بھئی واہ۔ بینگن اور اس کا مزہ۔ اس طرح دوسرے مصاحبین نے بھی بینگن اور اس باورچی کی تعریف اپنے اپنے طریقے سے کی جس طرح آج کے وزیر اور مشیر اور بیوروکریٹ اپنے سے اوپر والے کی کرتے ہیں، پورا دربار کئی دن تک بینگن کی تعریفوں سے گونجتا رہا۔
اب تو ہر دوسرے دن بادشاہ سلامت کے کھانے میں بینگن کی ڈش شامل ہوتی اور باورچی انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔ کچھ دن مسلسل بینگنکھانے سے بادشاہ سلامت کا پیٹ خراب ہوگیا اور ان کو بینگن اور باورچی پر بہت غصہ آیا۔ انہوں نے کہا یہ کیا فضول سبزی پکا رہے ہو فوری حکم دیا کہ اس باورچی کو جوتے مار کر محل سے نکال دو۔ بادشاہ سلامت نے بینگن کے بارے میں خاص برائی کی تو تمام درباریوں نے بھی بینگن کی برائی شروع کردی۔ آخر میں بادشاہ کے مصاحب خاص نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ بینگن بھی کیا فضول سبزی ہے۔ یہ واحد سبزی ہے جس کا بیکار سا جامنی رنگ ہے۔ بھلا بتائے کبھی سبزی کا رنگ بھی جامنی ہوا ہے اور ساتھ میں پیچھے دم چھلی، آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس نامعقول باورچی کی چھٹی کردی بلکہ اس کو تو تختہ دار پر لٹکا دینا چاہیے تھا۔ اس موقع پر مجھے فواد چودھری کی ایک دم نجانے کیوں یاد آگئی۔ خیر اب آگے چلتے ہیں۔ بادشاہ سلامت کو ایک دم کچھ خیال آگیا۔ اس نے مصاحب سے کہا ارے ابھی کچھ دن پہلے تو تم بینگن کو سبزیوں کا شہنشاہ اور اس کے سر پر تاج رکھ رہے تھے آج تم نے اس کو ’’دم چھلی‘‘ قرر دے دیا۔ مصاحب نے کہا بادشاہ سلامت ہم آپ کے نوکر ہیں، بینگن کے نہیں، آپ کو بینگن پسند آیا۔ ہم نے اس کو سبزیوں کا شہنشاہ قرار دے دیا۔ آپ نے بینگن ناپسند فرمایا۔ ہم نے اس کے ہرے رنگ کو دم چھلی قرار دے دیا۔ آج آپ اگر حکومت کے مشیروں کا حال دیکھ لیں تو مصاحب کا کردار آپ کی سمجھ میں خود آجائے گا۔ اس طرح کے خوشامد کرنے والے وزیر اور مشیر آپ کو مرکز کے علاوہ چاروں صوبوں میں نظر آئیں گے، بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی آگے بڑھنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ بس ملک میں واحد ایک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے جو لیڈر کا چنائو بھی شوریٰ کے تحت کرتی ہے۔ کسی کا بھائی، بیٹا، سالہ، بہنوئی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ ہاں اگر وہ جماعت کا کارکن ہے اور وہ جماعت اسلامی کے منشور پر کام ایمانداری سے کرتا ہے تو قیادت اس کا فیصلہ بھی میرٹ پر کرتی ہے۔ ویسے آج کل یہ طریقہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر اور اب ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بھی زیادہ تر ملازمین اسی طرح کے سنہری اصولوں پر چلتے ہیں اور افسران یا مالکان سے تمام جائز ناجائز فائدے اٹھاتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کرنے کا بہترین اصول جو محمد محسن صاحب کی کتاب تیشہ کوہ کن میں تحریر ہے۔
you should get your self certified and declared as dam fool and you will remain happy till your retirement
اس لیے کہ ہر افسر یہی کہے گا کہ وہ نکما اور نالائق ہے۔ آپ ہی کام کرلیں اور کام کرنے والا کام کرتا رہے گا اور کام چور خوش و خرم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ترقیاں بھی کرواتا رہے گا کیونکہ سرکاری ملازمت میں reward of good work is more work ہے۔ ترقی کے وقت ACR دیکھی جاتی ہے اور خوشامد کرنے والوں کی ACR ہمیشہ خوشامد نہ کرنے والے سے بہتر ہوتی ہے۔ اس طرح گھوڑے اور گدھے ایک ہی طرح ہانکے جاتے ہیں بلکہ گدھے زیادہ ترقی کرتے ہیں۔