لاہور ،ٹی پی ایل اور پولیس میں تصادم 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ،اسلام آباد سیل

542
اسلام آباد: احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر اسلام آباد کو کنٹینر لگا کر سیل کردیا گیا ہے‘ رینجرز اور پولیس تعینات ہے ‘چھوٹی تصویر میں لاہور میں مظاہرین پر شیلنگ کی جارہی ہے

لاہور/اسلام آباد(نمائندگان جسارت+ مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور میں کالعدم تنظیم تحریک لبیک کے ہزاروں کارکنوں نے اسلام آباد کی جانب ناموس رسالت لانگ مارچ شروع کر دیا اور ان کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کے دوران جھڑپوں میں 3پولیس اہلکار جاں بحق اور11زخمی ہوگئے۔تحریکِ لبیک کی جانب سے بھی اپنے 2 کارکنان کے جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہونے کے بارے میں بتایاگیا ہے۔حکومت نے اسلام آباد کو سیل کردیا ہے جب کہ لاہور اور راولپنڈی میں جگہ جگہ رکاوٹیں اور کنٹینرز کھڑے کرکے راستے بند کردیے ہیں۔تحریکِ لبیک کے کارکنوں نے اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد جمعہ کو ملتان روڈ پر واقع اپنے مرکز سے ریلی کی صورت میں جب آگے بڑھنا شروع کیا تو ایم اے او کالج کے قریب پولیس نے انہیں روکنے کے لیے آنسو گیس کے گولے چلائے جبکہ اس دوران متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔اس دوران ایم اے او کالج سے داتار دربار تک کا علاقہ جھڑپوں کا مرکز بنا رہا اور لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار ٹی ایل پی کے کارکنوں کے پتھراؤ کا نشانہ بنے۔ ترجمان آپریشنز ونگ کے مطابق پتھراؤ سے متعدد اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے تاہم تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ اس کے کارکنوں پر ان ہلاکتوں کا الزام بے بنیاد ہے۔پولیس کی جانب سے مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پٹرول بم پھینکنے کے الزامات بھی عاید کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ترجمان کے مطابق پولیس تشدد کے باوجود تحمل مزاجی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ادھر پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تحریکِ لبیک کے لانگ مارچ میں شامل مظاہرین کے مبینہ تشدد اور گاڑیوں کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے ہمدردی و اظہار تعزیت کرتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ایک بیان میں عثمان بزدار نے کہا ہے کہ اس افسوسناک واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے اور قانون کی عملدراری کو بہر صورت یقینی بنایا جائے۔اس سے قبل پنجاب کے وزیراعلیٰ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے وزیر قانون راجہ بشارت اور چوہدری ظہیرالدین مذاکرات کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و آشتی کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاہم پھر میڈیا نے ٹی ایل پی ترجمان کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پنجاب حکومت اور تنظیم کے درمیان لاہور میں مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔جھڑپوں کے بعد تحریکِ لبیک کی مرکزی شوریٰ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب بات چیت صرف اسی صورت میں ہوگی کہ جب لاہور میں قید تنظیم کے قائد سعد حسین رضوی کو رہا کرکے جلوس میں لایا جائے اور اب وہی مذاکرات میں تنظیم کی نمائندگی کریں گے۔خیال رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت حکومتی مذاکراتی ٹیم سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے معاملے پر کیے گئے معاہدے پر عمل کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔تنظیم کی مرکزی شوریٰ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر یہ مارچ روکنے کی کوشش کی گئی تو ان کے پاس ’پلان بی بھی موجود ہے۔ٹی ایل پی کے مارچ کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے اسلام آباد کو تقریبا سیل کردیا ہے جب کہ لاہور اور راولپنڈی میں متعدد شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔ حکام کی جانب سے موٹروے ایم ٹو پر لاہور کے قریب بابو صابو انٹرچینج کو بند رکھا گیا ہے جبکہ اسلام آباد کے داخلی راستوں اور مرکزی شاہراہوں کو جزوی یا مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کنٹینرز لگائے گئے ہیں۔ راولپنڈی میں اس وقت مری روڈ اور فیض آباد ٹریفک کے لیے بند ہیں جبکہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ان کے مطابق اسٹیڈیم روڈ کو بھی دونوں جانب ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کی صبح تحریکِ لبیک کے مزید 40کارکنوں کو گرفتار لیا گیا تھا۔ ان میں 20 کارکنان کو اٹک، 10 کو ٹیکسلا اور 10 کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا ہے۔جمعہ کو صبح سے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقعہ فیض آباد چوک اور راولپنڈی اسٹیڈیم روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ کو بھی متعدد جگہوں سے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے، جس سے دونوں شہریوں کو آمد و رفت میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔