ادب زبان اور الفاظ کے ذریعے انسان کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے

1111

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) ا نسانوںکو اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا اور بیان کا طریقہ وسلیقہ سیکھا یا ،ادب کا انسانی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے تاکہ وہ اعلی مقام انسانیت حاصل کر سکے۔ادب زبان اور الفاظ کے ذریعے انسان کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، مسلمانوںکا ایمان ہے کہ اسلام کے دائرے میں رہ کر ادب کے ذریعے ایک اچھااور بہتر ین انسان بنتا اور سنورتا ہے، جو انسان مطالعہ نہیں کر تا یقین اس کی شخصیت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہتی ہے ۔ایک ذمہ دار شخص کی تعمیر میں ادب کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار اردو زبان کے ممتاز نقاد، جدید اردو غزل کے اہم شاعر اور ادیب پروفیسر سحر انصاری ، کراچی یو نیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال ، معروف شاعر اور سرجن ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر اور تنظیم بزم شیر وسخن کے سابق صدر طارق جمیل نے جسارت سے خصوصی گفتگو کر تے ہوئے کیا ۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ انسان مثبت اور منفی اوصاف کا مرکب ہے۔ الفاظ کا اثر ہوتا ہے کسی کو دعا دی جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے اور کسی کو کو سا جائے تو وہ بر امانتا
ہے دل اس کا ملال وملول ہوجاتا ہے ، انسانی تمدن کے ارتقا میں اس کی ذہانت، شعور اور تجربے سے حاصل کردہ نتائج کا خاص طور پر حصہ رہا ہے، ہمارے اور دنیا کے شعرا نے اخلا قیات پر بہت توجہ دی ہے ،ادب کا انسانی زندگی کے ساتھ بہت گہرا اور اٹوٹ تعلق ہے ، جس کے نتیجے میں انسان ایک دوسرے کے قریب ہوتا اور اس میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے ،ہمدری اور مدد کے اس جذبے کے نتیجے میں ہی انسان مل جل کر رہنے کا سلیقہ سیکھتا ہے ۔ ادب دراصل زندگی سے ہی عبارت ہے۔ادب اور غیر ادب انسان میں اقدار ہی کا فرق ہے۔ زندگی کی قدریں کیا ہیں اور وہ کس سطح اور انداز سے انسانی احساس کی صورت گر ہوسکتی ہیں اور انھیں زندگی کی جمالیات کے ساتھ کس طور ہم آہنگ کرکے پیش کیا جائے، بس یہی شعور لفظوں کے فن کو تخلیقی و ادبی فن پارے کی شکل دیتا ہے۔ زندگی میں سائنسی نقطئہ نظر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کو بھی اہمیت دینی چاہیے، ورنہ معاشرے کے انسانوں میں ایک خلیج پیدا ہوسکتی ہے۔ دنیا کے بڑے ذہنوں نے انسان کے اس عمل کو مختلف حوالوں سے پرکھا اور اپنے ردِ عمل کا اظہار بھی کیا ہے ۔ سات سو برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے جب شیخ سعدی نے کہا تھا: ْتو کارِ زمیں را نکو ساختی کہ باآسماں نیز پرداختی یعنی اے انسان! کیا تو نے زمین کے تمام تعمیری کاموں کو مکمل کرلیا ہے کہ اب تیری پرواز اور توجہ آسمان کی طرف ہے۔پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ انساں کی ترقی میں ادب کا بہت بڑا حصہ ہے ،اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایک اچھا انسان اپنے اخلاق کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وجہ تخلیق کائنات انسان کی فلاح و بہبود اور اس کی دنیاوی خیریت اور آخروی نجات کے لیے ہے، تاکہ وہ اعلی مقام انسانیت حاصل کر سکے۔ اس ہی لیے شاعر نے کہا کہ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کوورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں ۔ چرند پر ند اور دیگر مخلو قات عبادت کے لیے بہت تھیں،ادب انسانی معاشرے اور انسانی فکر کا ترجمان ہے ادب سے ہی انفرادی اور اجتماعی شعوربیدار ہوتا ہے اور انسان انفرادیت سے اجتماعیت کی جانب بڑھتا ہے ، ادب ہر زمانے میں انسانی آرزوں اور حسرتوںمیںانسانوںکے ذہین میں چمکنے والی کرنوں کو اجاگر کر کے بہتر انسان اور بہتر سماج کے تصور کو جنم دیتا ہے،ایسا پیغام ہر شاعر کے ہاں ملے گا کہ ایک دوسرے کا انسان خیال کرے،ادب کا کرشمہ ہی یہ ہے کہ وہ لمحاتی تجربے کو آفاقی بناتا اور اس جوہر سے آمیز کرکے پیش کرتا ہے جو انسانی احساس کے ابدی عناصر سے مملو ہوتا ہے۔ مولانا اسماعیل کا شعر ہے کہ کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا. کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا ، ادب تو یقین انسان کو انسانیت کے دائرے میں رہ کر ترقی کا درس دیتا ہے ،ادب میں نفرت ،دشمنی اور عداوت کی تلقین نہیں کی گئی ۔ کراچی یو نیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ بظاہر یہ بات بہت اچھی ہے کہ ادب انسانی افکار خیالات احساسات کا ایک بہترین اظہا ر ہے ،ادب زبان اور الفاظ کے ذریعے انسان کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے اور افسانے ، ناول ، فلم ، گیت کی شکل میں انسان کے لطیف جذبات کو ابھار کر اپنی جانب گامزن کر تا ہے لیکن اس سے ایک سوال جنم لیتا ہے کہ بہتر ین انسان کی تعریف کیا ہے اور انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس میں بہترین معاشرے کی کیا تعریف ہے جب یہ بات طے کر لی جائے تو اس تناظر میں ادب کی بھی تعریف کی جاسکتی ہے ،دنیا میں زندگی گزارنے کے بے شمار نظریات ہیں ،جن میںسر فہرست ،کیپٹل ازم ، کمیونیزم ، سوشل ازم ، لیبرل ازم وغیرہ ہیں ہر نظام بہتر انسان اور بہتر معاشرے کی اپنی سوچ کے مطابق تعریف کرتا ہے اور اس نظام کی بقاء کے لیے جدوجہد بھی کرتا ہے اس ہی جدو جہد کے لیے وہ قلم اور ادب کا سہارا لیتا ہے۔ دنیامیں رائج نظاموں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ دین اسلام ہی سب سے بہتر نظام زندگی ہے اور اسلام کی تعلیمات کے دائرے میں ادب کی حدود طے کر تا ہے ،اسلام میں شاعری ، حمد، نعت ، منکبت ، نظم ، اور روایت کو ادب قرار دیا جاسکتا ہے ، مسلمانوںکا ایمان ہے کہ اس دائرے میں رہ کر مذکورہ ادب سے ایک اچھااور بہتر انسان بنتا اور سنورتا ہے ، جو ادب اس دائرے اور منہج سے باہر ہوگا وہ بہتر تو کیا الٹا معاشرے کو عریانی فحاشی ، حسد ، بغض ، تشدداور بے چینی کی طر ف لے جائے گا حالیہ دور میں ادب کی ایک الگ ہی شکل سامنے آئی ہے یہی وجہ ہے کہ ادب کو کو ئی الگ چیز تصور کیا جارہا ہے جبکہ انسان کو اس کے نظریات سے الگ نہیںکیا جاسکتا جیسا انسان کا نظریہ ہوگا ادب کو بھی اس ہی دائرے میں طے کیا جائے گا ، اسلام کے دائرے میںجو ادب پراوان چڑھے گا وہ اسلامی تعلیمات کے زیرے سایہ ہو گا ۔ معروف شاعر اور سرجن ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر نے کہا کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے اسلوب وبیان کے لحاظ سے دنیا کی بہترین کتاب شمار ہوتی ہے اس میں انسانوںکی رہنمائی کی گئی ہے ،ادبی لحاظ سے اس کا مقابلہ کسی دوسری کتاب سے نہیں کیا جاسکتا ،قرآن مجید تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالی کی جانب سے تحفہ ہے ،اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے جس کا مفہوم ہے کہ اس نے انسانوں کو تخلیق کیا قرآن کا علم دیا اور انسانوںکو بیان کا طریقہ وسلیقہ سیکھا یا ،دراصل انسانوںکو اظہار رائے کا سیلقہ ہی سیکھا نا وہ فن ہے جسے ادب کہا جاتا ہے ، دنیا کے تمام بڑے اور معروف افراد کا ادب سے ذوق رہا ہے ،تاریخی طور پر بھی اہل عرب اپنے علاوہ ہر شخص کو عجمی کہا کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ ہم دوسروں سے زیادہ فصیح وبلیغ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ عرب میں بچوں کو بھی اشعار ازبر تھے وہ اپنا نسب یاد رکھتے تھے ،ادب انسانی زندگی کا لازمی جز وہونا چاہیے ایسا نصاب جیسے پڑ ھ کر انسان کے خیالات میں وسعت پیدا ہو ا، جو انسان کی لغت میںاضافے کا باعث بنے ،اگر انسان کو افسانے ،کہانیا ں یا نصاب سے لگاؤ نہیں ہے اور وہ کتاب کا مطالعہ نہیں کر تا تو یقین اس کی شخصیت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہتی ہے ۔ تنظیم بزم شیر وسخن کے سابق صدر طارق جمیل نے کہا کہ ادب ان بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہے جو انسان کے کی شخصیت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ بہترین معاشرے کی تعمیر وترقی میں ادب کی اپنی ایک اہمت ہے ، ادب اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس معاشرے میں نصابی تعلیم کے ساتھ غیر نصابی تعلیم نہیں ہو تی وہاں پروفیشنل و مشینی انسان جنم لیتے ہیں مگر ان میں انسانیت کہیں نہیں ملتی ایسا معاشرہ ترقی تو کر تا دیکھائی دیتا ہے مگر سماج مشینی اکائیوں کی مانند بن جاتا ہے انسان ربورٹ کی طرح کام کر رہا ہوتا ہے لہٰذا کسی معاشر ے میں انسان کا ادب سے دور ہوجانا نہ صرف اس معاشرے کا زوال پذیر ہوناہے بلکہ اس کے نتیجے میں انسانوں کا ایک ایسا گروہ وجود میں آجاتا ہے جو پورے معاشرے کو ہی تباہ وبرباد کر کے رکھ دیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ذمہ دار شخص کی تعمیر میں ادب کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔