نبی اکرم ﷺ کی کثرت ازدواج

278

حضور سرورِ دو عالمؐ کی بعثت سے پہلے انسانیت اپنی پستی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور وہ تمام برائیاں جو کسی بْرے معاشرے میں پائی جا سکتی ہیں ان لوگوں میں موجود تھیں، اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ بھٹکی ہوئی انسانیت کا ناطہ دوبارہ اس کے خالق سے جوڑ دیا جائے اور اسے ہلاکت سے نکال کر ابدی زندگی میں کامیابی کی راہ دکھائی جائے اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کی راہ نمائی کی جائے، چنانچہ آپؐ کی بعثت ہوئی اور آپ نے ناصرف اپنے اقوال سے، بلکہ افعال سے بھی کامیاب زندگی کا ایک مثالی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور صرف کہہ کر ہی نہیں، بلکہ کر کے بھی دکھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کس طرح کی بندگی مطلوب ہے۔
صحابہ کرامؓ جاں نثار اور آپؐ کے علوم کے محافظ تھے، انہوں نے آپؐ کی معاشرت و معاملات، نشست و برخاست، سفر و حضر، صوم و صلوٰۃ، حکومت وقضا، جہاد و قتال، جنگ و امن میں کفار سے معاملات، آپ کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، شکل و صورت، خد وخال، قد وقامت، حسن و جمال اور لباس وغیرہ… غرضیکہ جو کچھ دیکھا اسے حرف بہ حرف محفوظ کیا اور بعد والی امت تک پہنچا دیا۔
لیکن اندورنِ خانہ زندگی سے متعلق آپؐ کی تعلیمات، جس کے تحت آپ کا سونا جاگنا، اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا، خلوت میں آپ کی عبادت کا حال، عورتوں کے مخصوص مسائل کے احکام، زوجین کے حقوق، ان سے معاشرت و مباشرت کے آداب وغیرہ احکام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور امت کے لیے ان احکامات کا علم ازواجِ مطہرات ہی کے ذریعے ممکن تھا۔
چوں کہ مرد و عورت کے درمیان حیا کا پردہ ہوتا ہے، اس لیے عورتیں اپنے مخصوص مسائل کے احکام عموماً ازواج مطہرات کے واسطے سے دریافت کرتی تھیں، پھر خود آپؐ کی طبیعت پر بھی حیا کا غلبہ تھا ،اس لیے جو عورتیں براہِ راست آپ علیہ الصلاۃ و السلام سے اپنے کسی مسئلے کا حکم دریافت کرتیں تھیں آپ سادہ الفاظ میں اس کا حکم بیان فرما دیتے اور بہت کھول کھول کر وضاحت نہ کرتے، جس سے بعض دفعہ سائلہ کو حکم پورے طور سمجھ نہ آتا، تو اس کی توضیح ازواج مطہرات ہی کے ذریعے ممکن ہوتی تھی۔ جیسا کہ کتب صحاح میں جامع ترمذی کے علاوہ تمام میں یہ روایت موجود ہے:
’’سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اقدسؐ سے غسل حیض کے متعلق سوال کیا، آپ نے بتلا دیا، اس کے بعد فرمایا کہ روئی کا ایک مشک آلود پھویا لے کر اس سے پاکی حاصل کر لو، اس نے پوچھا کہ کیسے پاکی حاصل کر لوں؟ فرمایا: بس پاکی حاصل کر لو، اس نے کہا کیسے پاکی حاصل کر لوں؟ آپ نے (تعجب سے) فرمایا:سبحان اللہ (اور کیسے بتلاؤں) اس سے پاکی حاصل کر لو۔ (عائشہؓ فرماتی ہیں) میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس سے کہا: جہاں خون کا اثر تھا تلاش کر کے اس روئی کے پھوئے کو اس جگہ رکھ لو‘‘۔ (بخاری)
یہاں اس مسئلے کا سمجھنا زوجہ مطہرہ ہی کے زریعے ممکن ہوا، اس کے علاوہ اور بے شمار مسائل ہیں جن کے بارے میں ازواج مطہرات ہی کے ذریعے امت کو راہ نمائی ملی، مولانا مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں:
’’تبلیغِ دین کی ضرورت کے پیش نظر نبی اقدسؐ کے لیے کثرت ازدواج ایک ضروری امر تھا، صرف سیدہ عائشہؓ سے احکام و مسائل، اخلاق و آداب سے اور سیرت نبوی سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں، جو کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں، سیدہ ام سلمہؓ کی مرویات کی تعداد تین سو اٹھتر تک پہنچی ہوئی ہے، حافظ ابن قیمؒ نے ’’اعلام الموقعین‘‘ (ص:9، ج:1) میں لکھا ہے کہ اگر سیدہ ام سلمہؓ کے فتاویٰ جمع کیے جائیں، جو انہوں نے نبی اقدسؐ کی وفات کے بعد دیے تو ایک رسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔
سیدہ عائشہؓ کا روایت، درایت اور فقہ و فتاویٰ میں جو مرتبہ ہے وہ محتاج بیان نہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے، نبی اقدسؐ کی وفات کے بعد مسلسل اڑتالیس سال تک علم دین پھیلایا۔
بطورِ مثال دو مقدس ہستیوں کا مجمل حال لکھ دیا ہے، دیگر ازواج مطہرات کی روایات بھی مجموعی طور پر کافی تعداد میں موجود ہیں، ظاہر ہے اس تعلیم و تبلیغ کا نفع ازواجِ مطہرات سے پہنچا‘‘۔ (معارف القرآن)