افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

277

نبی اکرمؐ کا یوم وفات
اہل سنت کی روایات میں اس بات پر اتفاق ہے کہ نبیؐ کی ولادت اور وفات ربیع الاول میں پیر کے روز ہوئی تھی۔ البتہ تاریخوں میں اختلاف ہے۔ ولادت مبارکہ کے بارے میں کسی نے 2، کسی نے 8، کسی نے 12، اور کسی نے 17 تاریخ لکھی ہے، لیکن جمہور اہل سنت کے ہاں مشہور تاریخ 12 ربیع الاول ہے۔ اسی طرح وفات کے بارے میں کسی نے یکم ربیع الاول، کسی نے 2، اور کسی نے 10 تاریخ لکھی ہے، مگر جمہور اہل سنت میں مشہور تاریخ 12 ربیع الاول ہی ہے۔ اہل سنت کی روایات کے مطابق حضورؐ کی وفات اور ولادت کے بارے میں صحابہ کرام اور اہل بیت کے ہاں نہ کوئی عمل رائج تھا نہ کسی قسم کی تقریبات ہوتی تھیں۔
اہل تشیّْع کی مشہور کتاب علامہ کْلینی کی اصول کافی میں بھی تاریخ پیدائش و وفات دونوں 12 ربیع الاول ہی درج ہیں۔ لیکن علمائے شیعہ کا اتفاق اس پر ہے کہ تاریخ ولادت 17 ربیع الاول اور تاریخ وفات 28 صفر ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، ائمہ اہل بیت بھی حضورؐ کی ولادت یا وفات کے دن کوئی تقریب منعقد نہیں کرتے تھے۔
یہ تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ تاریخوں میں اختلاف کیوں ہوا اور کب ہوا؟
(ترجمان القرآن، مارچ 1977ء)
٭…٭…٭
مسئلہ حیات النبیؐ
حیات النبیؐ کے بارے میں آج کل جس طریق پر علمائے کرام کے مابین بحث چل رہی ہے، اس کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ اس کا کچھ حاصل ہی ہے۔ عقیدے کی حد تک ہمارا اس بات پر ایمان کافی ہے کہ آنحضورؐ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور آپؐ کی ہدایت ابد تک کے لیے کامل ہدایت ہے، عمل کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ ہم آنحضورؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں جسے معلوم کرنے کی خاطر قرآن اور حدیث اور سنت ہمارا مرجع و منبع ہے۔ اب آخر اس بحث کی حاجت ہی کیا ہے کہ نبی کریمؐ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کس معنی میں زندہ ہیں۔ برزخی و روحانی حیات ہو یا جسمانی حیات، بہرحال اس امر واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آنحضورؐ کا 11 ہجری میں وصال ہوچکا ہے، امت کی ہدایت کے لیے آپ بنفس نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، اور آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے ہمیں آپؐ کی ذات اقدس کی طرف رجوع کرنے کی بجائے قرآن اور حدیث ہی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ حیات برزخی یا حیات جسمانی کی بحث کا کوئی بھی فیصلہ ہو، اس سے اس امر واقعہ میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔
پھر یہ بحث اس لیے بھی غیر ضروری اور لاطائل ہے کہ ہم اس خاص معاملے میں کوئی متعین عقیدہ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے مکلف ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اس مسئلے سے بالکل خالی الذہن ہو یا اس میں رائے قائم کیے بغیر مرجائے تو اس کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا، نہ آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے حیات النبیؐ کے برزخی و جسمانی ہونے کے بارے میں عقیدہ کیا رکھا تھا۔ قرآن و حدیث میں کوئی ایسی واضح اور قطعی ہدایت اس باب میں نہیں دی گئی جو ہمیں ایک خاص عقیدہ رکھنے کا پابند کرتی ہو، نہ یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان زیر بحث تھا، نہ آپؐ کے جانشینوں نے کسی کو اس معاملے میں کوئی خاص عقیدہ رکھنے کی کبھی تلقین کی۔
میں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حیات النبیؐ کے مسئلے میں حضرات علما وہی غلطی کر رہے ہیں جو خلق قرآن کے بارے میں خلیفہ مامون نے کی تھی۔ یعنی جس چیز کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسلام کا ایک عقیدہ اور ایمانیات کا ایک رکن قرار نہیں دیا تھا اور نہ جسے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کی نجات کا مدار رکھا تھا، اور نہ جس پر اعتقاد رکھنے کی خلق کو دعوت دی تھی، اسے خواہ مخواہ عقیدہ اسلام اور رکن ایمان بنایا جارہا ہے، اس کے ماننے یہ نا ماننے کو مدار نجات قرار دیا جارہا ہے، اس پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور اعتقاد نہ رکھنے والوں کی تکفیر و تفسیق کی جارہی ہے، دین میں جن چیزوں کی یہ حیثیت تھی ان کو صاف صاف اور حتمی طور پر بیان کردینے میں اللہ اور اس کے رسول اللہؐ نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور علیٰ رؤس الاشہاد ان کی طرف دعوت دی ہے۔ یہ مسئلہ ہر گز ان مسائل میں سے نہیں ہے اور اسے زبردستی ان مسائل میں شامل کرنا یا ان کا سا درجہ دینا کلیۃً غلط کاروائی ہے۔ اگر کوئی شخص اس مسئلے میں قطعاً خالی ذہن ہو یا اس کے بارے میں کوئی عقیدہ و رائے نہ رکھتا ہو، اس سے قیامت میں کوئی باز پرس نہ ہوگی اور اس کے انجام اخروی پر اس عدم رائے یا خلوئے ذہن کا کوئی اثر مترتب نہ ہوگا۔ البتہ خطرے میں وہ شخص ہے جو اس مسئلے میں ایک عقیدہ قائم کرتا اور اس کی تبلیغ کرتا ہے، کیوں کہ اس کے عقیدے میں صحت اور عدم صحت دونوں کا احتمال ہے۔ (ترجمان القرآن۔ دسمبر 1959ء)