صبر… گناہوں سے معافی کا ذریعہ

382

گناہوں کی معافی ہی اصل مسئلہ ہے۔ بشری کمزوری، شیطان کی وسوسہ اندازی اور دنیا سے بے جا محبت کی وجہ کر گناہوں کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ ہم اس بات کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کردے۔ صبرکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اْن کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے:
’’پس اے نبی! صبرو کرو، اللہ کا وعدہ برحق ہے اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح وشام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ (المومن: 55)
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی مغفرت کرتا ہے اور انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دیتا ہے۔ آخرت کی بھلائیاں انھیں ہی مل سکے گی جنھیں اس کی رحمت ڈھانپ لے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ہر شخص محتاج ہے اور آخرت میں تو اس کی رحمت ہی کے طفیل ساری بھلائیاں ہیں:
’’پھر جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ایمان لانے کی وجہ سے وہ ستائے گئے تو انھوں نے گھر بار چھوڑ دیے، ہجرت کی، راہ ِ خدا میں سختیاں جھیلیاں اور صبر سے کام لیا، ان کے لیے تیرا رب غفورو رحیم ہے‘‘۔ (النحل:110)
مغفرت سے جہنم سے نجات اور اجر کبیر کے ساتھ جنت کا داخلہ ممکن ہے۔ صبر کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے گا اور اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔ مغفرت اور اجر کبیر سے وہاں کی نعمتوں سے متمع ہونے کا موقع بھی ملے گا:
’’اس عیب سے کوئی پاک اگر ہیں تو پس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی‘‘۔ (ہود:11)
جتنا عظیم اجر کسی کے حصے میں آئے گا اتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوگا اور جس کا جتنا درجہ بلند ہوگا اتنا ہی اللہ کے انعام و اکرام کا مستحق ہوگا۔ وہاں جو چیز انسانوں کے کام آئے گی وہ انسانوں کا اجر ہی ہوگا۔ دنیا کی ساری چیزیں یہیں رہ جائیںگی، صرف اس کا اجر اس کے ساتھ جائے گا۔ صبر کرنے والے اجر عظیم سے نوازے جائیں گے اور اس کے صلے میں وہاں کی ابدی راحت پائیں گے: ’’اے نبی! جو لوگ تھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر بے عقل ہیں اگر وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (الحجرات: 5)
بہت سے لوگ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اْن خوش نصیب لوگوں میں صابرین بھی ہوں گے۔ قیامت کے مشکل ترین مرحلوں میں سے ایک مرحلہ حساب وکتاب کا مرحلہ بھی ہے۔ صبر کرنے والوں کو اس مرحلے سے نجات دے کر جنت میں داخل کیاجائے گا:
’’اے نبی! کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے رب سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے۔ صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا‘‘۔ (الزمر: 10)
دنیا کی راحت تو چند دنوں کی مہمان ہے۔ مگر آخرت میںجسے راحت نصیب ہوگی وہ کبھی ختم نہیں ہونے والی نہیں ہے۔ راحت تو صرف آخرت میں ہی مل سکتی ہے۔ دنیا کی زندگی تو مشکلات سے پْر ہے۔ آخرت کی ابدی راحت صابرین کے حصے میں آئیں گی:
’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اْن کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے‘‘۔ (النحل: 96)
اچھا ٹھکانا ہر شخص کی دلی خواہش ہوتی ہے۔ دنیا میں اگر اچھا ٹھکانا مل بھی جائے تو پائیدار نہیں ہے۔ اچھا ٹھکانا تو صرف وہی ہے کہ ایک بار اگر مل جائے تو پھر ختم نہ ہو۔ یہ صرف اور صرف آخرت میں ہی تصور کیاجاسکتا ہے۔ آخرت میں اچھا ٹھکانا صبر کرنے والوں کو ملے گا:
’’ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور بْرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے‘‘۔ (الرعد: 22)
جنت بذاتِ خود اعلیٰ مقام ہے اور جنت میں بھی اعلیٰ مقام تو بڑے نصیب والوں کا حصہ ہے۔ یہ خوش نصیب حضرات صبر کرنے والے ہوں گے۔ انھیں ان کا رب ذوالجلال والاکرام جنت سے نوازے گا اور جنت میںاعلیٰ مقام عطا کرے گا۔ وہ لوگ اپنے رب کی نوازشوں سے خوش ہوں گے اور ربِ دوجہاں ان کے صبر اور شکر سے راضی ہوگا۔ ان کا استقبال شاہانہ انداز میں کیاجائے گا:
’’یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا‘‘۔ (الفرقان: 75)
صبر کرنے والوں کو نہ صرف جنت دیا جائے گا، بل کہ انھیں ان کا رب جنت کے بالاخانوں میں اونچا مقام عطا کرے گا۔ کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو خوب اچھی جگہ اعلیٰ مقام اور اس کی بالائی منزل میں مقیم ہوں گے، جس کے نیچے نہریں جاری ہوںگی:
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیںگے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی وہاں وہ ہمیشہ رہیںگے کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔ اْن لوگوں کے لیے جنھوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں‘‘۔ (العنکبوت: 58-59)
آخرت میں عظیم نعمتیں جو جنتیوں کو عطا کی جائے گی۔ اس کی خاص بات یہ ہوگی کہ وہ نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوںگی اور وہ ہمیشہ قائم و دائم ہوگی۔ جنتیوں کو اس کی خوش خبری بھی سنادی جائے گی کہ یہاں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ وہاں نہ جنت ختم ہوگی نہ جنتی ختم ہوں گے اور نہ وہاں کی نعمتیں ختم ہوںگی، یہ اعزاز صرف کرنے والوں کے حصے میں آئے گا:
’’تم پر سلامتی ہے تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ (الرعد: 24)
کامیابی اسے کہتے ہیں کہ اگر ایک بار مل جائے تو کبھی ختم نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جہنم سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجانا ہی کامیابی ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کتنا ہی کامیاب سمجھا جاتا ہو لیکن آخرت میں جنت حاصل نہ کرسکا تو وہ وہاں کا ناکام و نامراد شخص ہوگا۔ دنیا کا ناکام شخص اگر جنت کا مستحق قرار دے دیا گیا تو وہ انتہائی کامیاب شمار کیا جائے گا۔ جنت کا حصول ہی اصل کامیابی ہے:
’’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہری فریب چیز ہے‘‘۔ (آل عمران: 185)
’’آج ان کے اس صبر کا میں نے یہ پھل دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں‘‘۔ (المومنون: 111)
OOO