مطالعۂ سیرتِ نبوی ﷺ

237

مطالعۂ سیرت کے مقصد کی تعیین بھی اتنی ہی اہم ہے، جتنی مطالعۂ قرآن کے مقصد کی تعیین اہم ہے۔ جیسا مقصد ہوگا اسی کے لحاظ سے اس کا مطالعہ اور اس سے استفادہ بھی ہوگا۔ اگر کوئی محدود مقصد ہو تو اسی کے اعتبار سے سیرت کا مطالعہ بھی محدود ہوگا اور اس سے استفادہ بھی۔
فرض کیجیے کہ کسی شخص کا مقصد صرف یہ جاننا ہو کہ نبیؐ پانچ وقتوں اور تہجد کی نمازیں کتنی اور کس طرح ادا فرماتے تھے؟ سو کر اْٹھتے تو کیا کرتے تھے؟ مختلف اوقات میں کیا دْعائیں مانگتے تھے اور آپؐ کی نشست و برخاست کیسی تھی؟ تو وہ انھی چیزوں کے مطالعے کو اہمیت دے گا اور انھی سے استفادہ کرے گا۔
نبی اکرمؐ کی تبلیغ دین کی کوششوں، سفر طائف کی صبر آزمائیوں، بدر و حْنین کی جنگوں اور کش مکشِ حق و باطل کی مزاحمتوں کے مطالعے سے اس کو کوئی حقیقی دل چسپی نہ ہوگی، اور سیرت کے اس حصے پر عمل اور اس سے استفادے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ شخص مقرر ہو تو زیادہ سے زیادہ ان چیزوں کو جلسۂ سیرت، مجالس وعظ کی زیبایش اور اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کرے گا۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنی پوری زندگی میں سیرتِ نبوی سے رہنمائی کا خواہش مند ہوگا، تبلیغ اسلام کو فرض سمجھ کر اس میں لگا ہوگا، وہ نبیؐ کی پیدایش سے لے کر وفات تک پوری تاریخ کا اپنے مقصد کے لحاظ سے مطالعہ اور اس سے استفادہ کی پوری کوشش کرے گا۔
استفادے کا طریقہ
استفادے کے دو طریقے ہیں: علمی اور عملی۔ علمی طریقے کی تفصیل اْوپر گزری۔ عملی طریقہ یہ ہے کہ دین سے تعلق رکھنے والے ہر معاملے میں نبی اکرمؐ کے قول اور عمل کو سامنے رکھ کر اس پر اْسی طرح عمل کیا جائے، جس طرح نبی اکرمؐ نے فرمایا، یا خود اس پر عمل کیا ہے۔ انسان کے ظاہر وباطن کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کی قولی و عملی تعلیم سیرتِ نبوی میں موجود نہ ہو۔
قرآنِ کریم نے تکمیل دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان کیا ہے۔ ا س سے معلوم ہوا کہ انسانی نجات و فلاح اورانسان کے روحانی ارتقا سے متعلق کوئی چیز چھوڑی نہیں گئی ہے۔ نبی کریمؐ نے اپنے ارشاد میں بھی بات واضح فرمادی ہے۔ میں صرف ایک حدیث کے ایک جامع حصے کا ترجمہ یہاں پیش کرتا ہوں:
عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو تمھیں جنّت سے قریب اور دوزخ سے دْور کرتی ہو، اِلا یہ کہ میں نے تمھیں اس کا حکم دے دیا ہے۔ اور ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو تمھیں دوزخ سے قریب اور جنّت سے دْور کرتی ہو، اِلا یہ کہ میں نے اس سے تمھیں منع کر دیا ہے۔ (مشکوٰۃ)
یہ حدیث امام بغوی نے شرح السنہ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے اور ترتیب و الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث جابرؓ اور ابوامامہؓ سے بھی مروی ہے۔ ابن ابی الدنیا، ابونعیم، حاکم اورابن ماجہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے۔
اس تفصیل سے ہمیں معلوم ہوا کہ سیرتِ نبوی کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟ آج کے پْرفتن دور میں ہمیں اپنے بچوں کو، اپنے نوجوانوں کو اور دوستوں کو سیرتِ نبوی کی کتابوں کے مطالعے کی طرف توجہ دلانا چاہیے۔ سیرت کی کتابوں کو گھروں میں لانا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین
مرتبہ: سیّد لطف اللہ قادری