سیدالمرسلینؐ اور قیادت کا معیار

478

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ انسانوں کو تلخ اور توہین آمیز زندگی سے نکالنے کے لیے جن قائدین نے اخلاص سے کوشش کی وہ قائدین بھی وقتی طور پر یا ایک مختصر مدت کے لیے ہی ان خرابیوں کے ازالے میں کامیاب رہے۔ کچھ ہی مدت بعد ان کی کامیابیاں ناکامیوں سے بدل گئیں۔ طویل عرصے تک وہ دنیا تو رہی ایک طرف اپنی قوم کو بھی مطمئن نہ رکھ سکے۔ انہیں کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں تو عارضی۔ زمانے کی چند ہی کروٹوں سے ان کے نظریات پرانے، خستہ اور بوسیدہ ہوکر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر گئے۔ ان اصلاح کرنے والوںکے قریبی ساتھی اور دوست ہی ان کے سب سے بڑے ناقد اور دشمن کے طور پر سامنے آئے۔ جلد ہی وہ قائد الزامات کی زد میں آگئے۔
آپؐ نے پوری انسانیت پر حجت تمام کی۔ کتنے ہی معاملات محض آپؐ کی تشریف آوری کے ساتھ ہی درست ہوگئے۔ ہزاروں لاکھوں افراد نے اپنے دل آپؐ کے سپرد کردیے اور تا زندگی وہ ہی نہیں ان کی نسلیں بھی آپؐ کی پیروی کرنے لگیں۔ اسلام کے عقیدے اور روح سے پھوٹنے والے افکار نے امت مسلمہ کو وہ طاقت عطا کی جس سے پوری دنیا نے فیض حاصل کیا۔ آپؐ نے انسانی طبیعت کے قفل پر دانشمندی اور احسن طریقے سے ٹھیک ٹھیک چابی لگائی۔ یہ وہ قفل تھا تمام مصلحین جس کو کھولنے میں ناکام رہے۔
اس تمام عمل اور انقلاب سے آپؐ نے اپنے اور اپنے خاندان اور عزیز واقارب کے لیے کچھ حاصل نہیں کیا۔ آپؐ نے دنیا سے کچھ بھی تو نہیں لیا بلکہ دنیا کو دیا ہی دیا۔آپؐ نے دنیا کو بتایا کہ قیادت کیا ہوتی ہے اور قیادت کا معیار کیا ہوتا ہے اور ایک قائد کو کتنا بے غرض اور بے لوث ہونا چا ہیے۔ خطبات مدراس میں سید سلیمان ندوی نے پٹنہ کے مشہور واعظ اسلام ماسٹر حسن علی مرحوم کے ایک ہندو تعلیم یافتہ دوست کی رائے لکھی ہے۔ اس نے ایک دن ماسٹر صاحب سے کہا:
’’میں آپ کے پیغمبر کو دنیا کا سب سے بڑا کامل انسان تسلیم کرتا ہوں۔ مجھ کو ان کی زندگی میں بیک وقت اس قدر متضاد اور متنوع اوصاف نظر آتے ہیں جو کسی ایک انسان میں تاریخ نے کبھی یکجا کرکے نہیں دکھائے۔ بادشاہ ایسا کہ ایک پورا ملک اس کی مٹھی میں ہو اور بے بس ایسا کہ خود اپنے کو بھی اپنے قبضے میں نہ جانتا ہو بلکہ خدا کے قبضے میں۔ دولت مند ایسا ہو کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے اس کے دارالحکومت میں آرہے ہوں اور محتاج ایسا کہ مہینوں اس کے گھر میں چولھا نہ جلتا ہو اور کئی کئی وقت اس پر فاقے سے گزرجاتے ہوں۔ سپہ سالار ایسا ہو کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں کو لے کر ہزاروں غرق آہن فوجوں سے کامیاب لڑائی لڑا ہو اور صلح پسند ایسا کہ ہزاروں پرجوش جان نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذ پر بے چون وچرا دستخط کردیتا ہو۔ با تعلق ایسا ہو کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی اس کو فکر، بیوی بچوں کی اس کو فکر، غریب ومفلس مسلمانوں کی اس کو فکر، خدا کی بھولی ہوئی دنیا کے سدھار کی اس کو فکر، غرض سارے سنسار کی اس کو فکر ہو اور بے تعلق ایسا کہ اپنے خدا کے سوا کسی اور کی یاد اس کو نہ ہو اور اس کے سوا ہر چیز اس کو فراموش ہو۔ عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح کا شبہہ ہو وہ پیغمبرانہ معصومیت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ عین اس وقت جب ہم اس کو شاہ عرب کہہ کر پکارنا چاہتے ہیں وہ کھجور کی چھال کا تکیہ لگائے کھردری چٹائی پر بیٹھا درویش نظر آتا ہے۔ عین اس دن جب عرب کے اطراف سے آآکر اس کے صحن مسجد میں مال واسباب کا انبار لگا ہوتا ہے اس کے گھر میں فاقہ کی تیاری ہورہی ہو۔ عین اس عہد میں جب لڑائیوں کے قیدی مسلمانوں کے گھروں میں لونڈی اور غلام بن کر بھیجے جارہے ہیں فاطمہ بنت رسول اللہ جاکر اپنے ہاتھوں کے چھالے باپ کو دکھاتی ہیں جو چکی پیستے پیستے اور مشکیزہ بھرتے بھرتے ہاتھ اور سینہ پر پڑ گئے تھے۔ عین اس وقت جب آدھا عرب اس کے زیر نگیں ہوتا ہے عمرؓ حاضر دربار ہوتے ہیں ادھر ادھر نظر اٹھاکرکاشانہ ٔ نبوت کے سامان کا جائزہ لیتے ہیں آپ ایک کھری چارپائی یاچٹائی پر آرام فرما رہے ہیں جسم مبارک پر بانوں کے نشان پڑگئے ہیں۔ ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے ہیں ایک کھونٹی میں خشک مشکیزہ لٹک رہا ہے۔ سرور کائنات کے گھر کی یہ کل کائنات دیکھ کر عمرؓ رو پڑتے ہیں‘‘۔
خاتم الانبیا محمد رسول اللہؐ کی جگہ کوئی قومی لیڈر اور محب وطن قائد ہوتا تو تمام کوششیں اور پوری عمر معاشرے کی کسی ایک برائی کے خاتمے اور معاشرے کے کسی ایک شعبے کی اصلاح میں کھپا دیتا۔ ایک بگاڑ کی اصلاح کرکے دوسرا بگاڑ پیدا کردیتا۔ جیسا کہ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے پرجوش حمایتیوں نے کیا ہے۔ اہل عرب کا ہیرو بننے کے لیے عربوں کی بے جا حمایت اور دوسروں سے نفرت اور تعصب کے ارادے ظاہر کرتے۔ اپنے آپ ہی کو پسند کرنے، اہمیت دینے اور تکبرکی تسکین کے لیے غیر عربوں کی برائی، عیب گیری اور توہین کرتے۔ انسانوں کو قیصرو کسریٰ یعنی روم اور ایران جیسی وقت کی سپرپاورز کی غلامی سے نکال کر بنو عدنان اور قریش کی غلامی میں دے دیتے۔ عربوں کی اصلاح اور مقامی تنظیم سازی کرکے دنیا کو عرب سامراجیت (Imperialism) کے سپرد کردیتے جیسا کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک نے اپنے ملک اور قوم کی ترقی کے لیے کیا۔ آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ لوگوں کو صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف بلایا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات بندوں تک پہنچائے۔ لوگوں کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ باطل کے انکار کی تلقین کی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوا ہر ہستی کی عبادت اور اطاعت کو گمرہی قرار دیا۔ آپ نے ایک ایک شعبے کی اصلاح کرنے کے بجائے پوری قوت سے اسلام کو نافذ کیا اور پھر حیرت انگیز رفتار سے تمام معاملات درست ہوتے چلے گئے۔ ہر شعبہ زندگی اصلاح کی طرف مائل ہوکر کمال بلندیوں کو چھونے لگا۔
چودہ سو برس گزر گئے آپؐ کے دامن پر کسی دھبے کی نشاندہی تو کجا دنیا آپؐ کے کردار کی رفعتوں پر حیران ہے۔ دنیا کے عظیم مفکرین، نامور فلاسفہ اور با کمال شخصیات نے زمانے کو اپنے افکار سے مزین کیا لیکن سو دوسو برس سے زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ان کے افکار کے نقائص اور شخصیت کے عیوب ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ان کے نقش دھند لانے لگتے ہیں۔ زمانہ آگے بڑھنے کے ساتھ انہیں مسترد کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کے نظریات زمانے کی رفتار کا ساتھ نہ دینے کے سبب اہمیت کھوتے چلے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار برس گزر گئے رسالت مآب محمدؐ کا مکتب فکر واحد مکتب فکر ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس کی طرف لپکنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ زمانے جس کی عظمت کے سامنے سر نگوں ہیں۔ آپؐ کی تعلیمات خستگی اور بوسیدگی سے دوچار ہوئیں اور نہ ہی ان میں پرانا پن آیا۔ دنیا کے آغاز سے تاقیا مت میدان فکر وعمل کے تمام شہ سواروں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیاجائے اور سید المرسلینؐ کو دوسرے پلڑے میں تو آپؐ کی ذات اقدس عظمت کی اس بلندی پر نظر آتی ہے جہاں پہنچنا تو درکنار اس کے تصور سے بھی بال وپر جلنے لگتے ہیں۔