شمائل مصطفی ؐ (حصہ دوم)

705

=’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ کے مرضِ وِصال میں ہم سیدنا ابوبکر صدیق کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے، اچانک نبی کریمؐ نے اپنے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اُٹھایا اور ہماری طرف دیکھا، ہمیں محسوس ہوا گویا کہ آپ کا چہرہ انور قرآن مجید کا ورق ہے، (بخاری)‘‘، امام نووی لکھتے ہیں: ’’(جس طرح قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے دیگر کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے، اِسی طرح) نبیؐ بھی اپنے حسن وجمال، چہرۂ انور کی نظافت وپاکیزگی اور تابانی میں یکتا و تنہا ہیں، (شرح النووی علی مسلم)‘‘، ابن اثیر فرماتے ہیں: ’’آپؐ کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ مسرور ہوتے تو آپ کا چہرہ آئینہ کی مانند اس قدر شفاف اور روشن ہوجاتا کہ دیواروں کا عکس آپ کے چہرہ انور میں صاف نظر آتا تھا، (النہایہ)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ، کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’نبی کریمؐ کا چہرہ انور اللہ عزوجل کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیا ت کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں، (مدارج النبوۃ)‘‘، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت کو اختیار نہیں کرسکتا، (بخاری)‘‘۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’آپؐ کے فرمان کے دو معنی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا تو اُس نے یقینا مجھے ہی دیکھا، اس لیے کہ ابلیس لعین میری صورت اختیار نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ جس نے مجھے دیکھا، اس نے اللہ رب العزت کو دیکھا، (شمائم امدادیہ)‘‘۔
شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی لکھتے ہیں: میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم خواب میں نبی کریمؐکی زیارت سے مشرف ہوئے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! یوسفؑ کے حسن سے حیرت زدہ ہوکر مصر کی عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے اور بعض لوگ تو اُنہیں دیکھ مرگئے تھے، مگر آپ کودیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی، تو نبی کریمؐ نے فرمایا: میرے حقیقی حسن وجمال کو اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چھپا رکھا ہے، اگر میرا حقیقی حسن وجمال ظاہر کردیا جاتا تو لوگ اس سے کہیں زیادہ کرگزرتے جو اُنہوں نے حسن یوسف کو دیکھ کر کیا تھا، (اَلدُّرُّالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاتِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن)‘‘، احمد رضا نے تقابل کرتے ہوئے فرمایا:
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
ترجمہ: ’’حسنِ یوسف سے حیرت زدہ ہوکر مصر کی عورتوں نے بے اختیار اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں، جبکہ محض آپ کے نام پر عرب کے نامی گرامی اشخاص اپنی جان قربان کرتے رہے ہیں‘‘، مولانا حسن رضا خان نے کہا:
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں، کون تماشائی ہو
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمؐ کو وہ رخِ زیبا عطا فرمایا تھا کہ جو بھی صاحبِ بصیرت اور سلیم الطبع انسان آپ کے چہرۂ انور کی طرف نگاہ ڈالتا، وہ بے ساختہ پکار اُٹھتا: ’’یہ مبارک اور دلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا‘‘، آپ کے رُخِ مبارک کو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت ورسالت کی صداقت کی دلیل وبرہان بنایا تھا۔
’’سیدنا عبداللہ بن سلام یہودیوں کے بڑے عالم تھے، انہیں تورات پر عبور حاصل تھا، وہ اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں: ’’جب رسول کریمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں آپ کی تشریف آوری کی خبر سنتے ہی آپ کو دیکھنے کے لیے حاضر ہوا، میری نگاہ جونہی آپ کے چہرۂ انور پر پڑی، میں نے جان لیا کہ ایسا دلکش ودلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا، (ترمذی)‘‘۔
’’سیدنا حارث بیان کرتے ہیں: ’’میں منٰی یا عرفات کے مقام پر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں لوگوں کو آپ کی زیارت کے لیے جوق درجوق آتے ہوئے دیکھ رہا تھا، میں نے مشاہدہ کیا کہ بدّو جب آپؐ کے رُخِ انور کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے، (ابوداؤد)‘‘۔
’’طارق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: ہمارے قافلے نے مدینہ طیبہ کے قریب پڑاؤ ڈالا ہوا تھا، ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے قافلے میں نبی کریمؐ تشریف لائے، اُس وقت تک ہم آپ کو جانتے نہ تھے، آپ کو ہمارا ایک سرخ اُونٹ پسند آگیا، آپ نے پوچھا: یہ اُونٹ فروخت کرو گے، ہم نے عرض کی: جی ہاں! فرمایا: کتنے میں، ہم نے اس کی قیمت بتائی، آپ نے رضامندی ظاہر کی، قیمت بھجوانے کا وعدہ کیا اور اُونٹ لیکر چلے گئے، جب آپ چلے گئے تو ہمیں فکر دامن گیر ہوئی کہ ہم نے ایک ایسے شخص کو اپنا اُونٹ رقم لیے بغیر حوالے کردیا ہے جس کا ہم نام پتا نہیں جانتے، محض وعدے کی بنیاد پر اُسے اُونٹ سپرد کردیا۔ ہماری قافلے میں ایک خاتون تھی، اُس نے ہمیں دیکھ کرکہا: تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو، بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا، میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہہ نہیں دیکھا، چنانچہ جب شام کا وقت ہوا تو ایک شخص اپنے ساتھ کھجوریں لایا اور کہا: میں نبیؐ کا نمائندہ ہوں، آپ نے یہ کھجوریں تمہارے لیے بھیجی ہیں، پہلے تم ان میں سے پیٹ بھر کھجوریں کھاؤ اور پھر جو قیمت میرے ذمے بنتی ہے، وہ وصول کرلو، (المستدرک)‘‘۔
نبی کریمؐ کے اِسی دلکش ودلربا چہرے اور آپ کی گیسوئے عنبریں کی اللہ تعالیٰ نے استعاراتی انداز میں قسمیں اُٹھائیں ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب اس کی تاریکی چھا جائے، (الضحیٰ:1،2)‘‘۔ امام فخرالدین رازی ان آیات کی تفسیر کے تحت ایک سوال قائم کرتے ہیں: کیا کسی مفسر نے ’’ضحٰی‘‘ کی تفسیر نبی کریمؐ کے رخِ انور اور ’’لیل‘‘ کی تفسیر آپ کے زلفوں کے ساتھ کی ہے، پھر خود ہی جواب دیتے ہیں: ہاں! یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض مفسرین نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ ’’وَالضُّحٰی‘‘ سے نبی کریمؐ کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور ’’وَاللَّیْلِ‘‘سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں، (تفسیر کبیر)‘‘۔ علامہ علی القاری بیان کرتے ہیں: ’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لیے ہوا ہے اس کا تقاضا ہے: ’’یہ کہا جائے کہ ’’ضُحٰی‘‘ میں آپ ؐکے رخِ انور اور ’’لَیْل‘‘ میں آپ کی گیسوئے عنبریںکی طرف اشارہ ہے، (شرح الشفاء)‘‘، احمد رضا قادری فرماتے ہیں:
ہے کلامِ الٰہی میں شمس الضحے، ترے چہرۂ نور فِزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا، کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم
امام رازی النور: 35کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں’’مِشْکوٰۃ‘‘ سے سیدنا محمد ؐ کا سینہ، ’’اَلزُّجَاجَۃ‘‘ سے آپ کا قلب اور ’’مِصْبَاح‘‘ سے دین کے اُصول وفروع کی وہ معرفت مرادہے جو آپ کے دل میں ہے، ’’شجرۂ مبارکہ‘‘ سے سیدنا ابراہیمؑ مرادہیں، کیونکہ آپ ان کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی ملت کے اتباع کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، پھر سیدنا ابراہیمؑ کی صفت میں فرمایا: ’’نہ وہ شرقی ہیں اور نہ غربی ہیں‘‘ کیونکہ آپ نہ نصاریٰ کی طرح عبادت میں مشرق کی طرف رخ کرتے تھے اور نہ یہود کی طرح مغرب کی طرف، بلکہ آپ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس چراغ کے تیل صفت میں فرمایا: وہ عنقریب بھڑک اُٹھے گا، روشن ہوجائے گا، خواہ اس کو آگ نے نہ چھوا ہو، سیدنا کعب احبار فرماتے ہیں: اس تیل سے مراد سیدنا محمدؐ کا نور ہے اور آپ اپنے صفاء ِ جوہر اور اپنی مقدس ذات میں اس قدر کامل تھے کہ اگر آپ پر وحی نازل نہ بھی ہوتی، تو آپ میں یہی کمالات ہوتے، آپ اِسی طرح نیکی کی ہدایت دیتے، آپ کی یہی پاکیزہ صفات ہوتیں، آپ پر قرآن نہ بھی نازل ہوتا تب بھی آپ کی نبوت لوگوں پر آشکار ہوجاتی، آپ پر قرآن مجید کا نازل ہونا’’نور علی نور‘‘ ہے، (تفسیر کبیر)‘‘، احمد رضا قادری فرماتے ہیں:
شمع دل، مشکوٰۃ تن، سینہ زُجاجہ نور کا
تیری صورت کے لیے آیا ہے، سورہ نور کا
امام عبدالرزاق اپنی سند کے ساتھ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں: میں نے نبی کریمؐ سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بتایئے ! سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو پیدا فرمایا ہے، آپؐ نے فرمایا: اے جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا ہے، پھر وہ نور قدرتِ الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ بہشت تھا، نہ دوزخ، نہ فرشتے، نہ آسمان وزمین، نہ سورج وچاند، نہ جنات تھے اور نہ انسان، پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے: ایک حصے سے قلم پیدا کیا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش، چوتھے حصے کی مزید تفصیلات درج ہیں، (المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ)‘‘۔ احمد رضا قادری نے اس روایت پر فتاویٰ رضویہ میں تحقیق کی ہے، شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
نبی خود نور اور قرآن ملا نور
نہ ہو کیوں مل کے پھر، نورٌ علی نور
اس حدیث سے نورِ محمدی کا أَوَّلُ الْخَلْق ہونا باولیت ِ حقیقیہ ثابت ہوا، کیونکہ جن جن اشیاء کی نسبت روایات میں اولیت کا حکم آیا ہے، ان اشیاء کا نورِ محمد ی سے متاخر ہونا اس سے حدیث سے منصوص ہے، (نشرالطیب بذکر النبی الحبیبؐ)‘‘۔