سیاسی مجذوب

1003

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ترجمانوں کے بیانات سے لگتا ہے کہ سبھی اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوچنا کہ خان صاحب کے ترجمان قریب النظری ہی کے نہیں فریب النظری میں مبتلا ہیں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مطلوب طالبان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان سے مذاکرات نہیں ہوسکتے مگر معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مذاکرات کرنا چاہتے ہیں بلکہ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب مذاکرات کررہے ہیں غور طلب بات یہ ہے کہ کابینہ میں شامل ارکان مجذوب کی طرح کیوں بڑبڑا رہے ہیں شاید یہ شعر انور شعور نے انہی کے لیے کہا ہے۔
منکسر ہو جو صاحب منصب
بخشتا ہے وقار منصب کو
وفاقی وزیرشیخ رشید ایک درجن سے زائد باراس بد نصیب ملک کے وزیر رہ چکے ہیں مگر ان کی وزارت سے ملک کو کوئی فائدہ نہ ہوا نہ عوام کی بھلائی ہوئی۔ موصوف نے اب تک وزاتوں سے لطف اندوز ہونے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ جب سے انہیں مسلم لیگ نواز سے نکالا گیا ہے وہ میاں نواز شریف کو سیاست سے بیدخل ہونے کی بڑبڑاہٹ میں مبتلا ہیں وہ اتنی بار یہ ارشاد فرماچکے ہیں کہ میاں نوازشریف کے لیے سیاست میں کوئی جگہ نہیں عوام جس جگہ جاتے ہیں شیخ رشید کے ارشاد گرامی کی گونج سنائی دیتی ہے موصوف کی آنکھوں پر فریب النظری کا وہ چشمہ لگا ہوا ہے۔ وہ اپنے تھوکے ہوئے لقمے اٹھا اٹھا کر چبانے میں کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے حالانکہ ملکی حالات اور عوام کی زبوں حالی کا تقاضا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیروں کی مشاورت پر غور کریں یہی ان کا اصل منصب ہے یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ موجود حکومت کی کارگردگی کے بجائے سابق حکومتوں کو کوسا جارہا ہے اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ سابق حکمران ملک اور قوم کے لیے بہتر ثابت ہوتے تحریک انصاف ثابت نہ ہوتی خدا جانے قوم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں ملک پر نااہل حکمران مسلط ہوتے رہتے ہیں وقت کا تقاضا ہے عف عف کا ترانہ چھوڑ کر قومی ترانے کا احترام کیا جائے اس کے ایک لفظ کو عملی جامہ پہنایا جائے اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو جامہ میں رہ کر ہی سرانجام دیا جاسکتا ہے المیہ یہی ہے کہ ایوان اقتدار میں آنے والے اپنے جامہ ایوان اقتدار کی دہلیز پر ہی اتار دیتے ہیں۔
عوام کے منتخب ارکان اسمبلی ووٹ کو عزت دیتے ہیں نہ عوام کا احترام کرتے ہیں بس اپنی سرمایہ کاری مع سود وصول کرنے کے سوا کچھ اور کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ منتخب ارکان اسمبلی ایسے بھی ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات اٹھانا چاہتے ہیں مگر وہ یہ نیک کام اپنے سرمایہ کاری کے وصولی کے بعد کرنا چاہتے ہیں جب ان کی سرمایہ کاری مع سود وصول ہوجاتی ہے ان کے اقتدارکی مدت ختم ہوجاتی ہے جو عوام اور ملک کے خاتمہ بالخیر ہونے پر کبھی منتج نہیں ہوتا۔
ان دنوں بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے بہت سے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں گے بعض سیاسی مبصرین اور سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ ارکان اسمبلی اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے درمیان مک مکا ہوجائے گا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تو ٹریلر ہے متعدد قوتیں اپنی برتری کا احساس دلا رہی ہیں اگر وزیراعظم عمران خان نے ان کی برتری کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا تو ان کی حکومت خمیدہ سر کردی جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب کی انا خشک لکڑی کی طرح ٹوٹتی ہے یا ہری لکڑی کی طرح سرسبز اور شاداب ہوتی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے بہت سی قوتیں میدان سیاست میں اتر چکی ہیں مگر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا یہ گمان ہے بلکہ یقین ہے کہ قوتیں اپنی کامرانی اور شادمانی کا تہیہ کرکے ہی میدان میں اتری ہیں وزیراعظم عمران خان کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بنانے کا فیصلہ بھی ہوسکتا ہے یا اقامہ جیسا کوئی بہانہ بنا کر عدلیہ انہیں میاں نوازشریف بنا سکتی ہے اگر بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلائی جاسکتی ہے اور اس اقدام کے بارے میں اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب خان صاحب کے تخلیق کار اپنی تخلیق پر لگے نشانات سے بددل ہوکر کوئی نئی تصویر بنالیں وطن عزیز کی سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہاں حکومت سازی کوزہ گری کی نئی صورت ہے حکومت سازی کے لیے بے طوق غلاموں کی ضرورت ہوتی ہے اور کوزہ گری کے لیے چکنی مٹی درکار ہوتی ہے حکومت سازی اور کوزہ گری پر غور کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ چکنی مٹی بہت اہم ہوتی ہے اور بنیادی کردار اسی کا ہوتا ہے آدمی چکنی مٹی سے بنا ہو یا کسی چاک پر ڈھلا ہوا کوزہ گری کا کوئی شہکار ہو سرشت کے اعتبار سے دونوں ہی مختلف ہوتے ہیں۔
اپنی عزت بھی گنوا دیتے ہیں آپ
غیر کو بے آبرو کر کے
حکومت اور اس کے ترجمان کہتے ہیں کہ پاکستان خطے کا سب سے سستا ملک ہے پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے اس لیے مہنگائی کا شور شرابہ کرنے والے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں عوام کی زبوںحالی سے کوئی غرض ہے نہ عوام کی بیروزگاری سے کوئی سروکار ہے وہ اپنی بیروزگاری کے لیے شور وغوغا برپا کیے ہوئے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا تعلق عوام کی آمدنی سے ہوتی ہے عوام کی آمدنی کم ہو اور اشیائے ضروریہ مہنگی ہوں تو قوت خرید زندگی کو اجیرن کردیتی ہے مہنگائی بڑھانے کے ساتھ آمدنی بھی بڑھادی جائے تو عوام ذہنی اذیت میں مبتلا نہیں ہوتے نہ ان کے چولہے ٹھنڈے ہوتے ہیں نہ ان کے بچے بھوک سے بلبلاتے ہیں۔